وہ آرہے ہیں ۔۔ افغان خواتین میں خوف کی لہر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-07-2021
کون بچائے گا جان خواتین کی
کون بچائے گا جان خواتین کی

 

 

 آواز دی وائس : افغانستان میں طالبان کی پیشقدمی کی کیا حقیقت ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ بہت یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں جانب سے دعوے اور جوابی دعوے کی جنگ بھی جاری ہے ۔

میڈیا نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ افغا نستان میں جاری طاقت کی جنگ کا ایک بڑا حصہ پروپگنڈا وار بھی ہے۔ بہرحال طاقت کا توازن کچھ بھی ہو ۔

یہ حقیقت ہے کہ افغان خواتین کی زندگی پر خوف کا سایہ پڑ چکا ہے ۔جن کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ اگر طالبان نے کابل اور حکومت پر قبضہ کرلیا تو ان کی زندگی کی ڈگر بدل جائے گی،وہ چہار دیواری میں قید ہوجائیں گی؟

خوف کی لہر

 پچھلے بیس سال کے دوران افغان خواتین نے زبردست کا میابی حاصل کی ہے اور مختلف میدانوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔مگر اب ایک ایسی ہی خاتون پروفیشنل ردا اکبر کہہ رہی ہیں کہ ہم تو مارے جائیں گے۔ انہیں کیمرے کی جو حیرت انگیز تصاویر ان کی آزادی اور ورثے کی علامت ہیں لیکن افغانستان میں یہی فن اب ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔

۔ ۳۳ سالہ ردا کو ملک کی کچھ طاقتور خواتین شخصیات کی تصاویر کی نمائش آن لائن کرنا پڑی کیوں کہ انہیں اس حوالے سے سنگین دھمکیاں مل رہی تھیں۔

 ردا اکبر نے طالبان کے بارے میں کہا: ’ہم بہت کم ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو مار کر وہ ہم سب کو خاموش رہنے پر مجبور کردیں گے۔

کون بچائے گا اور کون بچے گا

 افغانستان میں میڈیا سے وابستہ افراد، ججوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت اعلیٰ سطح پر کام کرنے والی خواتین ان 180 سے زائد افراد میں شامل ہیں، جنہیں گذشتہ سال ستمبر کے بعد سے چن چن کر قتل کیا گیا ہے۔ امریکی اور افغان حکام نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔

میکسیکو سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ فریدہ کہلو کی طرح ردا اکبر کی بنائی گئی اپنی بیشتر تصاویر (سیلف پورٹریٹس) میں انہیں قبائلی طرز کا تاج اور سونے چاندی کے زیورات پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ وہ افغانستان میں روزمرہ کی زندگی کی حیرت انگیز تصاویر کے لیے بھی مشہور ہیں۔

گذشتہ سال انہوں نے غیر معمولی شخصیات کی تصویر کشی کے لیے مینیکیونز (ملبوسات کی نمائش کے لیے استعال ہونے والے مجسمے) کا استعمال کیا جس میں خاتون فلم ساز، خاتون فٹ بالر اور روکھشنا نامی خاتون جن کو جبری شادی سے فرار ہونے پر طالبان نے سنگسار کر دیا تھا، کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

 ردا کی پانچ بہنیں ہیں، جن میں افغان انڈپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ شہرزاد اکبر بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنے والدین جن میں سے ایک مصنف اور ایک ٹیچر ہیں، کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

 ردا غیر معمولی طور پر دس سال سے کابل کے ایک اپارٹمنٹ میں تنہا زندگی گزار رہی تھیں۔

 ان کا ماننا ہے کہ ’افغانستان اب زیادہ قدامت پسند بن گیا ہے۔ ماضی میں افغان معاشرے میں فن اور نجی شعبے میں خواتین نے اہم کردار ادا کیے تھے اور انہیں زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔‘ لیکن طالبان کی آمد کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔ 1979 میں سوویت حملے کے خلاف لڑائی کا آغاز امریکیوں نے کیا تھا۔ 

طالبان کا زوال ہی خواتین کا عروج تھا

 افغان خواتین کی تاریخ امریکیوں کی 2001 میں آمد کے بعد شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ ’ہمارا ایک طویل اور شاندار ماضی ہے جس میں خواتین نے ہمیشہ اپنا حصہ ڈالا ہے۔‘

 جب بین الاقوامی برادری افغانستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں دعویٰ کرتی ہے تو ردا کو سخت مایوسی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے بقول ایک بااختیار اور جدت پسند افغان خاتون کو اکثر انگریزی بولنے یا ان کے مغربی لباس سے شناخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ وہ (مغرب) ہماری ثقافت پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ نوآبادیات کی ایک اور شکل ہے۔ وپ کہتی ہیں کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اثر ان کی ذہنی صحت، ان کے دھیان اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر پڑا ہے۔

 مجھے لگتا ہے کہ میں ان دنوں موت کے بہت قریب ہوں۔ کیا میں کل زندہ بچ پاؤں گی؟