طالبان امریکا امن معاہدے کے امکانات محدود

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-02-2021
امریکا کے صدر جو بائیڈن
امریکا کے صدر جو بائیڈن

 

 

کابل : امریکا میں صدارتی انتخابات کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے بہت سے فیصلوں پر خطرہ منڈلانے لگا ہے- اسی اثنا میں طالبان کے ساتھ ہونے والا امن معاہدہ بھی مخدوش ہو چکا ہے- بائیڈن انتظامیہ کے بہت سے فیصلوں سے یہ تاثر جانے لگا ہے کہ وہ طالبان کے بھروسے افغانستان کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے حالانکہ افغان حکومت اور طالبان ایک ماہ سے زیادہ کی تاخیر کے بعد مذاکرات کی میز پر واپس آ گئے ہیں۔

اس پیشرفت سے تشدد میں کمی اور آخرکار مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو جانے کے امکانات پر بحث بھی شروع ہو گئی ہے ۔ طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہو گیا ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوبارہ شروع ہونے والی بات چیت کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم یہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں اور اس عزم کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے بات چیت کا ایجنڈا طے کیا جائے گا۔

اس سے پہلے مذاکرات شروع ہونے کے چند دن بعد جنوری میں اچانک ختم ہو گئے تھے۔ اس موقعے پر دونوں جانب سے اپنا اپنا ایجنڈا پیش کیا گیا تھا۔ اب دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایجنڈے میں شامل اپنے نکات پر نظرثانی کریں اور ان معاملات پر اتفاق کریں جن پر بات چیت ہونی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے کیا جائے گا کہ پہلے کون سا معاملہ نمٹایا جائے گا۔ افغان حکومت، امریکہ اور نیٹو تینوں کی ترجیح تشدد میں سنجیدگی کے ساتھ کمی لانا ہے تاکہ جنگ بندی ہو سکے۔ طالبان کا مؤقف ہے کہ اس معاملے پر بات چیت کی جا سکتی ہے تاہم وہ اب تک کسی بھی فوری جنگ بندی کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔

امریکہ فروری 2020 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ ہونے والے اس امن معاہدے پر نظرثانی میں مصروف ہے جس کے تحت امریکی کو یکم مئی تک افغانستان سے فوج کو نکالنا ہے۔ طالبان افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کی مدت میں مختصر توسیع کے بھی مخالف ہیں لیکن واشنگٹن میں اس بات پر اتفاق رائے میں اضافہ ہو رہا ہے کہ فوج کے انخلا کی ڈیڈلائن میں توسیع کر دی جائے۔ اس نئے منظر نامے سے امن معاہدے کے امکانات محدود لگنے لگے ہیں۔