سپریم کورٹ : حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی ،معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-04-2022
حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہیں اور معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے
حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہیں اور معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے

 


اسلام آباد : قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ عدالت کے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے صرف آئین و قانون کو دیکھنا ہے۔ سپریم کورٹ خارجہ پالیسی یا ریاستی پالیسی کا تعین نہیں کر سکتی۔

منگل کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی قومی اسمبلی اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ بھی طلب کیا۔ دوسری جانب درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل میں رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرنے کی استدعا کی گئی۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ ’عدالت مبینہ سازشی خط طلب کرکے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی کا جائزہ لے۔

واضح رہے کہ سپیکر کی رولنگ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ‏پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اس کی عدالت انکوائری کرائے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔

عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان اور سپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو کل دلائل دینے کی ہدایت کی۔ کورٹ روم میں نئی پابندیاں منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر رش زیادہ ہونے کے باعث صحافیوں اور جونیئر وکلا کو کمرہ عدالت نمبر ایک میں جانے سے روک دیا گیا۔

سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ آنے والے لوگوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے منع کر دیا گیا۔ کمرہ عدالت میں صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور وکلا کو جانے کی اجازت دی گئی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز کمرہ عدالت نمبر ایک میں زیادہ رش کی وجہ سے کم لوگوں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے: چیف جسٹس سماعت کا آغاز ہوا تو افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے مقدمے میں فریق بننے کی استدعا کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے۔ افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے۔ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید جس نے لیٹر لکھا ان کو بلائیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے۔‘ اس دوران ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے خط کے معاملے کی تحقیقات کی استدعا کی تو عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو بھی روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کردی۔‘ 'آپ آپس میں لڑ رہے ہیں.

آپ سب کچھ ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں' وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے کو سن رہے ہیں۔ کیا پنجاب میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے کل ووٹنگ ہو رہی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔عدالت اس معاملے کو بھی دیکھے۔ جسٹس مظہر عالم نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ 'ووٹنگ کرا دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ 'آپ آپس میں لڑ رہے ہیں. آپ سب کچھ ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کل دیکھیں گے۔

ہم کل دوران سماعت اپ ڈیٹ لیں گے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس قانون کے مطابق ہوگا؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یقین ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کاروائی قانون کے مطابق چلائی جائے گی۔کوشش ہے کل فیصلہ سنائیں

چیف جسٹس، جلدی نہیں: جسٹس اعجازالاحسن سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ نیئر بخاری کے وکیل شہباز کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'جس قسم کے حالات بنائے گئے ہیں غیرآئینی اقدام ہو سکتا ہے. مجموعی طور پر مخدوم علی خان کی دلائل اپنا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریکیں منظور کر سکتی ہے۔ تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹم پر آئے اور کہا کہ کل باضابطہ دلائل کا آغاز کروں گا۔

جنرل نے کہا کہ ’اگر تمام وکلا کل دلائل مکمل کریں تو پرسوں مجھے موقع دیا جائے۔ یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے۔ قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔‘ چیف جسٹس نے کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔

نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'نواز شریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی۔ عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔