طالبان'کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ایران، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ ملکر ہوگا۔ عمران'

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-09-2021
عمران خان کاانٹرویو
عمران خان کاانٹرویو

 

 

آواز دی وائس : پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے تین دیگر ہمسایہ ممالک ایران ، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں بی بی سی کے جان سمپسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے ان کی تین شرائط ہیں جن میں ایک یہ کہ طالبان یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، دوسرا یہ کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور تیسری شرط یہ کہ طالبان ایک جامع حکومت تشکیل دیں گے۔

واضح رہے یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر اپنے ملک کا موقف بیان کیا ہے۔

انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ کیا طالبان کو پاکستان نے بنایا ہوا ہے؟

اس پر عمران خان نے کہا کہ ’بالکل نہیں! طالبان نے سوویت انخلا کے بعد یہ صورتحال پیدا کی، جنگجوؤں نے آپس میں لڑنا شروع کیا اور طالبان اس صورت حال کے نتیجے میں ابھرے۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کے حوالے سے لوگوں کے لیے ایک مثال قائم کی، جس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔‘

 جان سمپسن نے عمران خان سے سوال کیا کہ اگر طالبان ان شرائط تسلیم کر لیتے ہیں تو کیا پاکستان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا؟

اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس کا فیصلہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کرے گا۔

عمران خان مزید کہا کہ وہ ’افغانستان میں طالبان کی حکمرانی سے خوش ہیں کیونکہ انہیں اسی خونریزی کا خدشہ تھا جو سوویت یونین کے جانے کے بعد افغانستان میں دیکھی گئی تھی۔‘

عمران خان نے انٹرویو میں کہا ’ہم نے نہیں سوچا تھا کہ طالبان فوری طور پر کنٹرول سنبھال لیں گے ، لیکن ہمیں خیال تھا کہ وہ پشتون آبادی والے علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔

کوئی خونریزی نہیں ہوئی اب تک ، لیکن آگے کیا ہوگا؟ ہمیں بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

افغان خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بارے میں طالبان کی پالیسی کے بارے میں پوچھے جانے پر عمران خان نے کہا کہ طالبان نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ ایسا آہستہ آہستہ کریں گے ، لیکن انہیں (طالبان) کو ایسا کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہےکہ افغانستان میں لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنا غیر اسلامی ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ طالبان نے ہمیں اس حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مرحلہ وار ایسا کریں گے، ہم یہاں سے بیٹھ کر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کر سکتے ہیں لیکن مستقبل میں کیا صورتحال بنے گی، اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔ ہمارا مذہب خواتین کی آزادی کا مذہب ہے، یہ سوچ اسلامی نہیں کہ خواتین تعلیم حاصل نہ کریں، یہ شاید افغانستان کی کوئی دیہی ثقافت ہو لیکن اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے افغانستان میں خواتین کو حقوق ملنے کی بھی توقع ظاہر کی اور کہا کہ افغانستان کی خواتین مضبوط ہیں، دنیا انہیں وقت دے وہ خود اپنے حقوق لے لیں گی یہ حقوق لینے میں انہیں ایک دو یا تین سال لگ سکتے ہیں، طالبان کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو قومی دھارے میں مرحلہ وار شامل کریں گے۔

بی بی سی کے جان سمپسن نے پوچھا کہ کیا عمران خان طالبان کو تسلیم کر رہے ہیں؟

نہیں! میں صرف ان کی باتوں کی تصدیق کر رہا ہوں، اب کیا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم۔ سچ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ افغانستان اب کہاں جائے گا۔ لیکن ایک چیز جس کی ہم امید کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں وہ افغانوں کے لیے پانچ سال بعد امن اور استحکام دیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک ہیں جو صرف افغانستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں اور طالبان نے ان کے مشورے کا خیر مقدم کیا ہے۔

جب عمران خان سے زور دے کر پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے جو شرائط ہیں، طالبان حقیقت میں ان پر پورا اتریں گے، تو عمران خان نے بین الاقوامی برادری سے بار بار طالبان کو مزید وقت دینے کا مطالبہ کیا۔

 

 انھوں نے کہا ’اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہو گا۔

  پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام پر طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں لیکن طالبان نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ پاکستانی وزیراعظم نے ان کے رہنماؤں سے رابطہ کیا ہے۔

عمران خان نے طالبان سے ایک جامع حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ تمام دھڑوں کو شامل نہیں کرتے تو جلد یا بدیر وہاں خانہ جنگی ہو گی، اس کا مطلب ایک غیرمستحکم افغانستان ہو گا جو دہشت گردوں کے لیے آئیڈیل مقام ہو گا اور یہ بات ہمارے لیے پریشان کن ہے۔