ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی مکمل طور پر بحالی کا فیصلہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-08-2022
ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی مکمل طور پر بحالی کا فیصلہ
ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی مکمل طور پر بحالی کا فیصلہ

 

 

تل ابیب :اسرائیلی وزیراعظم یائر لیپڈ کے دفتر کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور ترکی نے سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تعلقات کی بہتری کے لیے دونوں ممالک کے سفیر جلد واپس بھیجے جائیں گے۔ بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ تعلقات میں بہتری دونوں ممالک کے عوام، معیشت، تجارت اور ثقافتی تعلقات میں اضافے کا سبب بنے گا اور علاقائی استحکام میں بھی مضبوطی ہوگی۔

دونوں ممالک نے 2018 میں یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے خلاف غزہ کی سرحد پر مظاہروں کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 60 فلسطینیوں کی ہلاکت پر سفیروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔

مارچ میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے ترکی کے دورے، جس کے بعد دونوں وزرائے خارجہ کے دوروں نے ایک دہائی سے زیادہ کشیدگی کے بعد تعلقات کو گرمانے میں مدد کی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سطح کو ایک بار پھر مکمل سفارتی تعلقات کی سطح پر لانے اور دونوں ممالک کے سفیروں اور قونصل جنرلز کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یائر لاپید کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تعلقات کو بحال کرنے سے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان پہلے سے موجود تعلقات کو گہرا کرنے، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی روابط کو وسعت دینے اور علاقائی استحکام کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوشوغلو نے سفیروں کی دوبارہ تعیناتی کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ اپنا سفیر تل ابیب بھیجے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔

ترک وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع ہوا۔ سفیروں کی تعیناتی ان اقدامات میں شامل تھی جو تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم فلسطین، یروشلم اور غزہ کے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گے۔‘ اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات ترک صدر رجب طیب اردگان کے دور میں منقطع ہو گئے تھے جو فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اسرائیل نے جواباً ترکی کی طرف سے غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی حمایت پر انقرہ سے اعتراض کیا تھا۔

انقرہ اور تل ابیب نے 2010 میں اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے ملکوں سے اس وقت واپس بلا لیا تھا جب اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد لے جانے والے ترکی کی ایک بحری کشتی پر حملہ کیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں نو ترک کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں ایک مرتبہ پھر گھٹائی میں پڑ گئیں جب ترکی نے 2018 میں امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے ساتھ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ معاشی مشکلات سے دوچار ترکی مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر اپنی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رواں سال کے آغاز میں یائر لاپید نے جون میں اپنے ترک ہم منصب کے مقبوضہ بیت المقدس کے دورے کے ایک ماہ بعد انقرہ کا دورہ کیا تھا جو 15 سالوں میں کسی ترک عہدیدار کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔ مارچ میں اسرائیل نے بھی ترکی کے دارالحکومت میں صدر اردوغان سے ملاقات کی تھی۔

 اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی اور سفیروں کی تعیناتی کے اعلان پر حماس کی سیاسی قیادت میں شامل باسم نعیم کا کہنا ہے کہ ’گروپ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے کسی بھی قسم کی کوششوں کو مذمت کرتا ہے۔‘ باسم نعیم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم تمام عرب، مسلمان اور دوست ممالک سے امید کرتے ہیں کہ وہ قابض (اسرائیل) کو تنہا کرنے کی جانب بڑھیں اور ہمارے قانونی فلسطینی حقوق کے لیے دباؤ ڈالیں۔‘