نائن الیون کی برسی: صدر بائیڈن سمیت ہزاروں افراد کی شرکت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-09-2021
ایک سانحہ کا غم
ایک سانحہ کا غم

 

 

نیویارک:صدر جو بائیڈن امریکہ کی تاریخ میں دہشت گردی کے بدترین واقعے یعنی نائن الیون کے 20 سال پورے ہونے کے موقعے پر آج سر جھکائے ان سینکڑوں افراد کے لیے منعقد دعائیہ تقریب میں شرکت کی جن کی زندگیاں دو دہائیاں پہلے ستمبر کے اس دن چھین لی گئیں۔ امریکہ کے شہر نیو یارک کے گراؤنڈ زیرو پر ہفتے کو گیارہ ستمبر کے حملوں کی بیسویں برسی پر صدر جو بائیڈن اور سابق صدور، براک اوباما اور بل کلنٹن نے ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ اور رضا کاروں کے ساتھ مل کر ستمبر الیون میموریل پلازہ پر تقریب میں شرکت کی۔

ستمبر الیون میموریل پلازہ اسی جگہ قائم ہے جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاور موجود تھے جو 11 ستمبر 2001 کے روز دہشت گرد حملوں میں تباہ ہو گئے تھے۔ ان حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی بیسیوں برسی ایسے موقع پر آئی ہے جب امریکہ کرونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما ہے اور افغانستان سے امریکہ کا انخلا مکمل ہونے کے بعد طالبان کی حکومت دوبارہ آ چکی ہے۔

لیکن اس بار بطور کمانڈر ان چیف صدر بائیڈن کے کندھوں پر مستقبل میں ایسے سانحات کو روکنے کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب امریکہ کے اس ملک سے نکلنے کے بعد دہشت گردی میں اضافے کے نئے خدشات سر اٹھائے کھڑے ہیں جہاں 11 ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

اس بار نائن الیون کی 20 ویں سالگرہ ایسے موقعے پر آئی ہے جب محض دو ہفتے قبل امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے موقعے پر کابل میں ایک خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ 

افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد دنیا میں نئے خدشات نے جنم لیا ہے کہ یہ ملک ایک بار پھر نائن لیون جیسے حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ بن سکتا ہے اور اس کا الزام بائیڈن کی حکومت پر عائد کیا جائے گا۔

awazurdu

لیکن اپنے پیشروؤں کی طرح صدر بائیڈن کے لیے نائن الیون کی سالگرہ ایک موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ قومی اتحاد کے مقصد کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ان بدترین حملوں کے بعد پیدا ہوا تھا لیکن ملکی سیاسی تقسیم نے اسے ختم کر دیا تھا۔

جیسا کہ سابق صدر باراک اوباما کے پریس سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے رابرٹ گبز نے کہا: ’امریکیوں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ جو بائیڈن کو ڈیموکریٹ صدر کے طور پر نہیں بلکہ امریکہ کے صدر کے طور پر دیکھیں۔‘

گبز نے کہا کہ امریکی عوام گذشتہ چند ہفتوں سے افغانستان میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے ان کی خیالات تصادم کا شکار ہیں۔

ان کے بقول: ’یہ بائیڈن کے لیے بھی عوام کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کا ایک موقع ہے۔ وہ لوگوں کو یاد دلائیں کہ کمانڈر ان چیف ہوتا کیا ہے اور اس اہم موقعے پر ملک کے لیڈر ہونے کا کیا مطلب ہے۔‘ 

صدر بائیڈن آج امریکہ کی ناقابل تسخیر فضا کو تہس نہس کرنے والے واقعے، جو تین ہزار امریکیوں کی ہلاکت کا باعث بنا، کے تینوں مقامات کا دورہ کریں گے۔ صدر بائیڈن نے جمعے کو ایک ویڈیو جاری کی تھی تاکہ ان لوگوں کو یاد کیا جاسکے جو اس واقعے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انہوں نے متاثرین کے اہل خانہ کو تسلی دی اور پچھلے 20 سالوں کے دوران امریکی اہلکاروں کی ہمت اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

 انہوں نے قوم سے پرجوش اپیل کی کہ وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر حملوں کے بعد پیدا ہونے والے تعاون کے جذبے کو دوبارہ زندہ کریں۔

 بائیڈن نے کہا: ’میرے نزدیک یہ 11 ستمبر کا مرکزی سبق ہے کہ اتحاد ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔

‘  ہفتے کی صبح صدر نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز کی یاد گار پر حاضری دی۔ پھر پنسلوانیا کے شینکس ویلے کے قریب ایک میدان میں گرنے والے طیارے کے مقام پر اور آخر میں پینٹاگون جہاں دنیا کی سب سے طاقت ور فوج کو اس کے ہیڈ کواٹر میں ناقابل تصور دھچکا لگایا گیا تھا۔

لیکن اس دن جب یہ تمام تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں، افغانستان کی صورت حال نئے خطرات اور چیلنچز کی جانب اشارہ کر رہی ہو گی۔

 اسامہ بن لادن نے اس ملک کو 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا تھا۔

 بائیڈن نے طویل بحث کے بعد امریکی فوج کو افغانستان سے نکال لیا لیکن کچھ لوگوں کے لیے طالبان کی اقتدار میں واپسی اور اس سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرے نے نائن الیون کی 20 ویں سالگرہ کو زیادہ تلخ اور پریشان کن بنا دیا ہے۔