کمپالا (یوگنڈا): ہندوستان نے جمعرات کو ناوابستہ تحریک (NAM) کے رکن ممالک سے دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ جو بھی ملک دہشت گردی کو کسی بھی شکل میں اسپانسر کرتا ہے، اس کا جواز پیش کرتا ہے یا اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ دہشت گردی بالآخر اسی کو نقصان پہنچائے گی۔
یہ بیان ہندوستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے امور خارجہ کیرتی وردھن سنگھ نے یہاں نام کی 19ویں وسط مدتی وزارتی کانفرنس میں دیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک "مشترکہ خطرہ" ہے جس کا حل صرف گہرے بین الاقوامی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ کیرتی وردھن سنگھ نے کہا: "ہندوستان دہائیوں سے سرحد پار سے کی جانے والی بربریت پر مبنی دہشت گردانہ حملوں کا شکار رہا ہے۔
حالیہ ترین حملہ 22 اپریل 2025 کو ہوا، جب جموں و کشمیر کے پہلگام میں معصوم سیاحوں کو قتل کر دیا گیا۔" انہوں نے کہا کہ NAM کے تقریباً تمام رکن ممالک دہشت گردی سے درپیش خطرے سے واقف ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
پاکستان کا بالواسطہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلگام دہشت گرد حملے پر غور کیا، تو ایک رکن ملک نے مجرم تنظیم (دی ریزسٹنس فرنٹ) کا دفاع اس حد تک کیا کہ اس نے تنظیم کے نام کا کوئی بھی عوامی ذکر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔" انہوں نے چین کا بھی بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے کہا: "بدقسمتی سے، ایک اور رکن ملک ایسا ہے جو اس ملک کی (پاکستان کی) کارروائیوں کا دفاع کرتا ہے۔"
کیرتی وردھن سنگھ نے کہا: "یہ ضروری ہے کہ NAM دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے۔ دہشت گردی کی کسی بھی قسم کی سرپرستی، حمایت، جواز یا پردہ پوشی کا نتیجہ بالآخر ایسے عناصر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔" انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی ملک دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کا درجہ دیتا ہے، دہشت گردوں کو بے خوفی سے پنپنے دیتا ہے، یا سرکاری عہدے دار دہشت گردوں کی تعریف کرتے ہیں، تو ایسی کارروائیوں کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔
انہوں نے موجودہ عالمی چیلنجز جیسے ماحولیاتی تبدیلی، قرضوں کا بوجھ، سپلائی چینز کی پائیداری، تکنیکی تفاوت، تجارت اور محصولات، اور دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب دنیا کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہا کہ NAM کے پلیٹ فارم کو "گلوبل ساؤتھ" کی جائز امنگوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا: "ہمیں ضرورت ہے: منصفانہ اور شفاف اقتصادی نظام، پائیدار اور قابل اعتماد سپلائی چینز، تنازعات کے فوری حل، سرحد پار دہشت گردی سے معصوم شہریوں کے تحفظ، عالمی مفادات کی سلامتی، اور ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کے مشترکہ فوائد کے حصول کی۔" انہوں نے کہا: "ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سمیت کثیرالجہتی نظام میں اصلاحات کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ عالمی فیصلہ سازی میں عصری حقائق کی عکاسی ہو سکے۔"