انہوں نے کہا: "اگر آپ ہیروشیما اور ناگاساکی کو دیکھیں، تو سمجھ آتا ہے کہ ان حملوں نے بھی ایک جنگ کو ختم کیا۔ وہ ایک مختلف طرز کی جنگ تھی، لیکن اس کی تباہی بھی شدید تھی۔"
ایران نے ان حملوں کے جواب میں قطر میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل فائر کیے، جس سے خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ ہو گیا۔ تاہم 12 دن کے بعد، 24 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔ ٹرمپ نے اعلان کیا: "یہ جنگ ختم ہو چکی ہے، اور اب حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔"
صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اگلے ہفتے ایران اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات ممکن ہیں، اگرچہ ایرانی حکومت نے اس کی تاحال تصدیق نہیں کی۔ ٹرمپ نے کہا: "ہم شاید کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن مجھے یقین نہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "میری نظر میں انہوں (ایران اور اسرائیل) نے ایک جنگ لڑی، اور اب یہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔"
اسی دوران ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق بدھ کو پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کی نیوکلیائی نگران ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ پارلیمانی اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا: "بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے نیوکلیائی تنصیبات پر حملوں کی مذمت نہ کر کے اپنی ساکھ کو نیلام کر دیا ہے۔"
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے ایرانی حکام کو خط لکھ کر نیوکلیائی تنصیبات کے معائنے کی بحالی پر بات چیت کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا: "ہمیں دوبارہ ایران واپس جانا ہو گا تاکہ نیوکلیائی ذخیرے کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔"
ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکی حملوں سے قبل اس نے اپنے انتہائی افزودہ یورینیم کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا نیوکلیائی پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق بھی ایران اس وقت نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران جلد ہی ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔