طالبان کا موت اور ہاتھ کاٹنے کی سزائیں’پردے‘ میں دینے کا اعلان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-09-2021
طالبان کی نیت اور ارادہ اب واضح ہے
طالبان کی نیت اور ارادہ اب واضح ہے

 

 

کابل:

کون کہتا ہے کہ طالبان بدل گئے ہیں، خود طالبان اس بات کا ثبوت دے رہے کہ کچھ نہیں بدلا ہے۔ بلکہ وہ جیسے تھے ویسے ہی ہیں ۔نہ ارادہ بدلا ہے اور نہ نیت ۔ان کا طریقہ کار بدلا ہے نہ ہی سوچ۔اس کا ایک ثبوت اب ملا ہے ۔طالبان نے واضح کردیا ہے کہ افغانستان میں اسلامی  قوانین کے ساتھ سزائیں بھی دی جائیں گی۔

افغان طالبان کے بانیوں میں سے ایک اور گروپ کی اسلامی قانون کی سخت تشریح نافذ کرنے والے ملا نور الدین ترابی نے کہا ہے کہ ان کی تحریک ایک بار پھر موت اور ہاتھ کاٹنے کی سزاؤں کا آغاز کرے گی تاہم اس مرتبہ شاید یہ سزائیں کھلے عام نہ دی جائیں۔

 ملا ترابی نے کابل میں انٹرویو دیتے ہوئے ماضی میں طالبان کی جانب سے پھانسیوں پر غم و غصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ سزائیں کبھی کبھی سٹیڈیم میں ہجوم کے سامنے دی جاتیں۔

 انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ’سب نے سٹیڈیم میں دی گئی سزاؤں پر تنقید کی لیکن ہم نے کبھی ان کے قوانین اور ان کی سزاؤں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘

 انہوں نے مزید کہا: ’کوئی ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور ہم قرآن کے مطابق اپنے قوانین بنائیں گے۔

جب سے طالبان نے 15 اگست کو کابل پر کنٹرول حاصل کر کے ملک کی حکومت سنبھالی ہے، افغان عوام اور دنیا دیکھ رہے ہیں کہ آیا وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنی سخت حکمرانی کے انداز کو دوبارہ اپنائیں گے یا نہیں۔

 ملا ترابی، جو اب اپنی 60 کی دہائی کے اوائل میں ہیں، ماضی کی طالبان حکومت میں وزیر انصاف اور نام نہاد وزارت برائے تبلیغ اور برائی کی روک تھام کے نائب تھے۔

 اس وقت دنیا نے طالبان کی کابل کے سپورٹس سٹیڈیم یا وسیع عید گاہ کی حدود میں اکثر سینکڑوں شہریوں کی موجودگی میں سزائیں دینے کی مذمت کی تھی۔

ملا ترابی نے کہا کہ اس بار علما کی بجائے ججز، جن میں خواتین بھی شامل ہوں گی، مقدمات کا فیصلہ کریں گے لیکن افغانستان کے قوانین کی بنیاد قرآن ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہی پرانی سزائیں بحال کی جائیں گی۔

 انہوں نے کہا کہ ہاتھ کاٹنا سیکورٹی کے لیے بہت ضروری ہے اور یہ کہ کابینہ غور کر رہی ہے کہ عوامی سطح پر سزائیں دی جائیں یا نہیں تاہم اس حوالے سے ’پالیسی تیار کی جائے گی۔‘