طالبان کا راج :کابل خوف ،دہشت،بے چینی اورغیر یقینی کا شکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-08-2021
کابل میں واقع صدارتی محل میں داخل ہونے کے بعد طالبان
کابل میں واقع صدارتی محل میں داخل ہونے کے بعد طالبان

 

 

کابل: افغانستان میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ طالبان نے برق رفتاری کے ساتھ کابل پر قبضہ کرلیا۔غنی حکومت نے بغیر کسی مزاحمت اقتدار کی منتقلی کردی۔راتوں رات افغانستان کا نقشہ بدل گیا۔

 افغانستان میں اب طالبان کا مکمل قبضہ اور کنٹرول ہے۔ایک بے چینی ہے۔ عوام میں خوف ہے۔ خواتین میں دہشت ہے۔

 کابل سے شہریوں کا انخلا جاری ہے۔ حالانکہ طالبان نے اعلان کردیا ہے کہ کسی قسم کی زبردستی اور ظلم نہیں ہوگا۔ مگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔

دو دن قبل جہاں ملک کے دیگر حصوں کی بنسبت کابل میں زندگی معمول پر تھی، لوگ اپنے دفتروں کو جا رہے تھے، والدین بچوں کو سکول بھیج رہے تھے اور دکانیں اور مارکیٹیں کھلی تھیں۔

 اتوار کو شہریوں کی اس بے چینی اور تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سرکاری دفاتر بند ہوئے اور یہ خبر آئی کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اقتدار کی منتقلی سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے۔

کابل شہر میں مارکیٹیں بھی بند ہو گئی ہیں، لوگ گھروں تک محدود ہو گئے ہیں اور بینکوں میں بھی بے حد رش دیکھا گیا۔

 افغان فوج بھاگ کھڑی ہوئی

کابل کے شہری اکرام اللہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ملک کے حالات اتنے جلدی بدل جائیں گے اور افغان فوج پیچھے ہٹ جائے گی۔  رات سے کابل کی فضا بے چین ہے اور ضرورت سے زیادہ ہیلی کاپٹر گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں حکومت اور فوج پر بھروسہ تھا لیکن اچانک یہ کیا ہوا، یہ چیز سمجھ نہیں آ رہی۔ ہمارے خواب جیسے جیسے بکھر رہے ہیں، ویسے ہی ہماری امید بھی ختم ہو رہی ہے۔

کابل کے ایک اور شہری عمر شیر کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے امریکہ نے ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہو۔ بیس سالوں سے افغانستان میں جو ترقی ہوئی وہ جیسے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہو۔

 صحافی فیروزہ عزیزی کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات اچانک بدل گئے ہیں اور یہ تشویش کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تو نہ بھوک لگ رہی ہے اور نہ نیند آ رہی ہے۔ ’اس دفعہ وہ جھگڑا نہیں جو پہلے تھا لیکن میں مستقبل کے لیے فکر مند ہوں، آج زندگی معمول کی نہیں۔ میں نے پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ گھر کی کفیل ہوں۔ پتا نہیں کل گھر سے نکل بھی پائیں گے، نوکری کر بھی سکیں گے یا نہیں بس یہی فکر ہے۔‘

جنگ کا خاتمہ ہوگیا

 طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کا اختتام ہوگیا، طالبان کو 20 سال کی جدوجہد اور قربانیوں کا پھل مل گیا، افغانستان میں نئے نظام حکومت کی شکل جلد واضح ہوجائیگی۔

 ترجمان طالبان محمد نعیم نے نیوز چینل الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے، ہر قدم ذمہ داری سے اٹھائیں گے، عالمی برادری کے تحفظات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی افغانستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، طالبان کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور چاہتے ہیں کوئی دوسرا ملک بھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ امید ہے غیرملکی قوتیں افغانستان میں اپنے ناکام تجربے نہیں دہرائیں گی۔

غنی کا پیغام ۔ دل جیتو

 افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑکر جانے کے بعد اپنے پہلے فیس بک پیغام میں افعانستان کے لوگوں کو مخاطب کر کے اپنے فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا ہے اور طالبان کو عوام کے دل جیتنے کی تاکید کی ہے۔

 انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام کا آغاز عزیز ہم وطنو سے کیا اور لکھا کہ ’آج مجھے ایک مشکل انتخاب کرنا پڑا۔ مجھے ان مسلح طالبان کا سامنا کرنا تھا جو محل میں داخل ہونا چاہتے ہیں یا پھر اس ملک کو چھوڑنا تھا جس کی میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ 20 سالوں کے دوران حفاظت اور پرورش کی۔

اگر اب بھی بے شمار ہم وطنوں کو شہید کیا گیا تو انہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور کابل شہر تباہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں 60 لاکھ آبادی والے شہر میں بڑی انسانی تباہی ہوگی۔‘

 اشرف غنی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ’طالبان نے یہ سب اس لیے کیا کہ وہ مجھے بے دخل کرنا چاہتے تھے وہ یہاں اس لیے ہیں کہ وہ پورے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ خونریزی کے سیلاب کو روکنے کے لیے میں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘

 طالبان نے تلوار اور بندوق کا فیصلہ اپنے حق میں کر لیا ہے اور اب وہ اپنے ہم وطنوں کی عزت اور جائیداد کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔۔

اشرف غنی کے مطابق طالبان کو اب تاریخی امتحان کا سامنا ہے، یا تو وہ افغانستان کے نام اور عزت کو محفوظ رکھیں گے یا دوسری جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے۔

 افغان صدر اشرف غنی جنہیں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سابق کہہ چکے نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’بہت سے لوگ اور بہت سے طبقے خوف میں ہیں اور انہیں مستقبل پر کوئی یقین نہیں ہے۔

 انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کے تمام لوگوں، نسلوں، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کے دل جیتیں اور اپنی قانونی حیثیت حاصل کریں۔

 افغانستان کے صدر اشرف غنی کا ملک چھوڑنے بعد پہلا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خون ریزی روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

 اشرف غنی کا اپنے فیس بک پیج پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ ’آج مجھے مسلح طالبان کے سامنے کھڑے ہونے جو صدارتی محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اپنے پیارے ملک کو چھوڑ جانے میں سے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔

اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہ 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لیے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔

 طالبان نے تلوار اور بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور اب وہ اہل وطن کی جان و مال اوعزت کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوان کے دل نہیں جیتے۔ صرف طاقت نے تاریخ میں کبھی کسی کو جواز حکمرانی اور قانونی حیثیت نہیں دی اور نہ دے گی۔

افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ ‘اب طالبان کو ایک نئے تاریخی امتحان کا سامنا ہے وہ یا تو افغانستان کا نام اور وقار برقرار رکھیں گے یا دیگر جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے۔

بہت سے لوگ اور بہت سے طبقات خوفزدہ اور مستقبل کی حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔

طالبان کےلئے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے تمام لوگوں، قبائل، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کو یقین دلائیں اور قانونی حیثیت حاصل کرنے اور لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ایک واضح منصوبہ بنائیں اور اسے عوام کے ساتھ شیئر کریں۔ میں ہمیشہ اپنے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔

مزید بہت سی باتیں مستقبل کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔

امارت اسلامیہ افغانستان‘ کے قیام کا اعلان بہت جلد

طالبان بہت جلد کابل کے صدارتی محل سے ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کے قیام کا اعلان کریں گے۔

خیال رہے 2001 میں امریکی قبضے سے قبل طالبان حکومت کا نام ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ کے ملٹری یونٹ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور ان کی پیش قدمی معمول کے مطابق جاری ہے۔ 

یونیسف کا آفس محفوظ ہے 

ترجمان یونیسیف کا کہنا ہے کہ اب تک طالبان نے ہمارے دفاتر کو نقصان نہیں پہنچایا، تاہم طالبان نے کابل پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان یونیسیف نے کہا کہ طالبان چاہتے ہیں اقوام متحدہ یہیں رہے اور کام جاری رکھے۔

برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغان وزارت داخلہ نے کابل میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔

افغانستان نے طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی برطانوی میڈیا کے مطابق طالبان نے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا، جبکہ کابل میں صدارتی محل کی موجودہ صورتحال واضح نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان کی کابل پہنچنے کی خبر کے بعد شہر کی سڑکوں پر افراتفری مچی ہوئی ہے، بڑی تعداد میں لوگ کابل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ کابل میں اکثر دکانیں بند، دفاتر خالی کردیے گئے ہیں، جبکہ بینکوں کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔