طالبان کا خواتین ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-09-2021
حقوق کے لیے خواتین سڑکوں پر ہیں
حقوق کے لیے خواتین سڑکوں پر ہیں

 

 

کابل : لیجئے !طالبان کا رنگ آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ جاتی ہے۔ اب طالبان نے اپنا ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس نے ظاہر کردیا ہے کہ نئے اور پرانے طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

در اصل عبوری میئر حمد اللہ نعمانی نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ نئی حکومت نے شہر کی کئی خواتین ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے۔

 افغانستان کابل کے عبوری میئر حمد اللہ نعمانی نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ نئی حکومت نے شہر کی کئی خواتین ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے۔

کابل کے میئر مولوی حمد اللہ نے کابل میونسپیلٹی کی ملازمین خواتین کو کہا ہے کہ صرف وہ خواتین کام پر واپس آ سکتی ہیں جن کی پوزیشن مرد نہیں سنبھال سکتے یا جو پوزیشنیں مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دیگر خواتین گھروں میں ہی رہیں ان کو تنخواہ ملتی رہے گی۔

حمد اللہ نعمانی کے مطابق صرف ان خواتین کو ملازمت پر جانے کی اجازت دی گئی ہے جن کے کام مرد ملازمین انجام نہیں دے سکتے۔ عبوری میئر کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹ دی گئی ملازمیتوں میں ڈیزائننگ اور انجینئرنگ کے شعبوں میں ہنر مند کارکنوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے قائم عوامی بیت الخلاؤں کی خاتون اٹینڈینٹس بھی شامل ہیں۔

 عبوری میئر کابل کے بیان سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ طالبان رواداری اور خواتین کی شمولیت کے ابتدائی وعدوں کے باوجود عوامی زندگی میں ان پر پابندیوں سمیت اسلام کے قوانین نافذ کر رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اپنے پہلے دورہ اقتدار کے دوران طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے اور ملازمتوں پر جانے سے روک دیا تھا۔ عبوری میئر کا کہنا ہے کہ کابل کے بلدیاتی محکموں میں خواتین ملازمین کے بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا تاہم وہ اس دوران اپنی تنخواہیں لے سکیں گی۔

حمد اللہ نعمانی نے بتایا کہ گذشتہ ماہ طالبان کے افغانستان پر قبضے سے پہلے کابل کے بلدیاتی اداروں میں تقریبا تین ہزار ملازمین میں سے ایک تہائی تعداد خواتین کی تھی۔ اس سے قبل افغان طالبان کی نئی حکومت میں وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے کہا تھا کہ خواتین پوسٹ گریجویٹ لیول سمیت یونیورسٹیوں میں اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے مخصوص کلاس رومز اور اسلامی لباس میں ہونا لازمی ہوگا۔

 دنیا اس بار طالبان کے طرز حکمرانی کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے کہ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنے پہلے دور اقتدار سے کس حد تک مختلف کام کر سکتے ہیں۔

گذشتہ دور میں خواتین کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع سے محروم اور عوامی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔ طالبان نے اب دعویٰ کیا ہے کہ وہ خواتین کے تئیں اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ہیں تاہم انہوں نے حالیہ دنوں میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال بھی کیا ہے۔

اس کے علاوہ طالبان نے خواتین کے امور کی وزارت کو وزارتِ ‘امر بالمعروف اونہی عن المنکر’ سے تبدیل کر دیا ہے۔  خواتین کے حوالے سے یہ تازہ پیش رفت طالبان کی جانب سے افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے صرف ایک ماہ بعد سامنے آئی ہیں جنہوں نے اقتدار میں واپس آتے ہی خواتین کے حقوق کو محدود کر دیا ہے۔