اپریل میں کھولے جائیں گے لڑکیوں کے اسکول:طالبان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-01-2022
اپریل میں کھولے جائیں گے لڑکیوں کے اسکول:طالبان
اپریل میں کھولے جائیں گے لڑکیوں کے اسکول:طالبان

 

 

کابل:مارچ کے بعد لڑکیوں کے اسکول کھول دیے جائیں گے، طالبان افغانستان کے نئے حکمراں طالبان نے بین الاقوامی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک پر عمل درآمد کے لیے ٹائم لائن کا اعلان کر دیا۔ طالبان نے کہا کہ مارچ کے بعد ملک بھر میں لڑکیوں کے اسکول کھول دیے جانے کی امید ہے۔ایسی امید کی جا رہی ہے کہ افغان بچیاں اپریل سے اسکول جانے لگیں گی۔

افغانستان میں وسط اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کو ساتویں جماعت آگے کے اسکولوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان نے20 برس قبل اپنے پہلے دور اقتدار میں خواتین کے لیے تعلیم، ملازمت اور عوامی زندگی میں سرگرم حصہ لینے پر پابندی عائد کردی تھی۔ بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ طالبان ایک بار پھر اسی طرح کے سخت اقدامات نافذ کرسکتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی برادری کا اصرار ہے کہ طالبان ملک میں جامع حکومت کے قیام کے علاوہ خواتین کو بھی حقوق دیں۔ طالبان کے نائب وزیر ثقافت و اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ محکمہ تعلیم 21 مارچ کو افغانستان میں شروع ہونے والے نئے سال میں تمام لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم "حکومت کی صلاحیت کا سوال ہے۔"' ہم تعلیم کے خلاف نہیں' طالبان رہنما نے کہا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پوری طرح الگ الگ اسکول ہونے چاہئیں اور ہمارے لیے اب تک کی سب سے بڑی رکاوٹ لڑکیوں کے لیے ہاسٹلز کی تلاش یا تعمیر تھی۔

انہوں نے کہا کہ گھنی آبادی والے علاقوں میں صرف لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس رومز کا ہونے ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسکولوں کے الگ عمارتوں کی بھی ضرورت ہے۔

طالبان رہنما نے کہا،"ہم تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔" طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بننے کے دعوؤں کے باوجود ملک کے 34 صوبوں میں سے 10 صوبوں کو چھوڑ کر دیگر تمام صوبوں میں ساتویں جماعت سے آگے کی کلاسز میں لڑکیوں کو اسکولوں میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ البتہ دارالحکومت کابل کی پرائیوٹ یونیورسٹیوں اور ہائی اسکولز میں تعلمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس رومز بنائے گئے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ پراُمید ہیں کہ نئے سال (نوروز) کے آغاز تک یہ مسائل حل کر لیں گے۔ تاکہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھولی جاسکیں۔

طالبان عملی ثبوت دیں بین الاقوامی برادری کا موقف ہے کہ وہ طالبان کو ان کے اعلانات اور وعدو ں کے بجائے ان کے عملی اقدامات کی بنیاد پر جانچیں گے۔ بین الاقوامی برادری خواتین کی تعلیم اور طالبان کے دیگر دعوؤں کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہی ہے۔

یہاں تک کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کے لیے اربوں ڈالر فراہم کرنے کے لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ شدید سرد موسم کی وجہ سے تقریباً 30 لاکھ ایسے افغان بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو جنگ، خشک سالی، غربت یا طالبان کے خوف کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے افغانستان کے لیے پانچ ارب ڈالر امداد کی اپیل کی تھی۔بیشتر افسران سابق حکومت کے اہلکار ہیں امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک کو شکایت ہے کہ طالبان نے وعدے کے باوجود اپنی حکومت میں مختلف نسلی اقلیتوں کے علاوہ کسی بھی خاتون کو شامل نہیں کیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے تاہم انٹرویو کے دوران کہا کہ اُن کے نائب وزیر خزانہ اور وزارتِ خزانہ میں کئی افسران وہی ہیں جو امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے دور میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ سابق انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے والے 80 فی صد سول اہل کار کام پر واپس آ چکے ہیں اور خواتین صحت، تعلیم کے شعبوں اور کابل ایئرپورٹ میں کسٹم اور پاسپورٹ کنٹرول کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کے ارکان کی جانب سے افغان شہریوں کو ہراساں کرنے کے کچھ واقعات کا اعتراف کیا جس میں نوجوانوں کی تذلیل اور ان کے بالوں کو زبردستی کاٹنا بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا، "اس طرح کے جرائم ہوئے ہیں لیکن یہ ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔