ریاض: سعودی عرب نے اتوار کے روز مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی حکومت کے ایک سینئر وزیر کی جانب سے کی گئی "اشتعال انگیز حرکت" کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسے اقدامات مشرق وسطیٰ میں تنازع کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔
یہ مذمت اس وقت سامنے آئی جب اسرائیل کے دائیں بازو کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے یروشلم کے حساس مذہبی مقام ،مسجد اقصیٰ ، میں داخل ہو کر وہاں یہودی مذہبی رسومات ادا کیں۔ یہ مقام مسلمانوں کے نزدیک تیسرا مقدس ترین اور یہودیوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مملکت نے بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اسرائیلی حکام کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے، جو امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘
اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک پرانا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت غیر مسلموں کو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں کئی بار اسرائیلی حکام اور سیاستدانوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس بار وزیر بن گویر نے ’تیشا بآو‘ کے روز ، جو یہودیوں کے ہیکلوں کی تباہی کی یاد میں منایا جاتا ہے ، عوامی طور پر دعا کی، جو اس حساس مقام پر پہلا موقع ہے کہ کسی سرکاری وزیر نے ایسا کیا ہو۔فلسطینی اتھارٹی نے اسے خطرناک اشتعال انگیزی‘‘ قرار دیا، جبکہ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹز‘ نے بھی اس عمل کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بعد میں وضاحت دی کہ مسجد اقصیٰ (جسے وہ ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں) پر اسٹیٹس کو میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
اتمار بن گویر نے اس عمل کو فلسطینی گروہوں کی جانب سے دو اسرائیلی یرغمالیوں کی جاری کی گئی ’’ہولناک ویڈیوز‘‘ کا جواب قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اب غزہ پر مکمل خودمختاری نافذ کر دینی چاہیے، جس طرح اس نے مسجد اقصیٰ میں اپنی پوزیشن دکھائی ہے۔اردن نے بھی سعودی عرب کی طرح اس اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے، جبکہ عالمی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اس طرح کے اقدامات ایک نئے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔