ماسکو: امریکی صدر کی جانب سے روس۔یوکرین جنگ کے حل کے لیے پیش کیے گئے امن منصوبے پر روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اسے جنگ کے خاتمے کی بنیاد بنانے کے قابل قرار دیتے ہوئے مثبت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ روسی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد دیر رات جاری اپنے بیان میں پوتن نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کیف نے اس منصوبے کو مسترد کیا تو روسی فوج اپنی کارروائیاں مزید آگے بڑھائے گی۔
پوتن کے مطابق امریکی تجویز ایک ایسا فریم ورک پیش کرتی ہے جس پر کام کرکے آخری امن معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ امریکی—روسی فریم ورک میں 28 نکات شامل ہیں، جن کے مطابق یوکرین کی خودمختاری برقرار رہے گی لیکن اس کی فوج کی زیادہ سے زیادہ تعداد چھ لاکھ تک محدود رہے گی۔
منصوبے کے تحت یوکرین کا ایک قابلِ ذکر حصہ روس کے حوالے کرنے کی تجویز ہے جبکہ کیف کو مستقل طور پر نیٹو میں شامل ہونے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نیٹو ممالک سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی یوکرین کو فوجی اتحاد میں شامل نہ کیا جائے اور نہ ہی وہاں اپنی افواج تعینات کی جائیں۔
رپورٹس کے مطابق پوتن کا کہنا ہے کہ روس اس معاہدے کے بارے میں لچک دکھانے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی منصوبہ گزشتہ برس الاسکا سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی تجویز سے بہتر ہے، تاہم اب تک اس پر روس کے ساتھ کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں ہوئی۔ پوتن نے یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی یہ گمان رکھتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں روس کو شکست دی جا سکتی ہے، جو ان کے بقول حقیقت سے دور ہے۔
امریکی منصوبے میں روس کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ وہ دوبارہ کسی ملک پر حملہ نہیں کرے گا، جس کے بدلے اسے عالمی معیشت میں دوبارہ شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس پر عائد پابندیوں میں نرمی کی بھی تجویز ہے اور ماسکو کو ایک بار پھر G7 میں شامل کیے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جہاں سے اسے 2014 میں کرائمیا پر قبضے کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
دوسری جانب یوکرین اور یورپی ممالک نے اس منصوبے کے کئی نکات کو ماسکو کے حق میں قرار دیتے ہوئے شدید اعتراضات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رعایتیں پوتن کو مزید جارحیت پر اکسا سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیف کو منصوبے پر فیصلہ کرنے کے لیے تھینکس گیونگ ڈے تک کی مہلت دی ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو ایک انتہائی مشکل فیصلے کا سامنا ہے، جس میں یا تو قومی وقار کو دھچکا پہنچ سکتا ہے یا ایک اہم عالمی اتحادی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔