اسقاط حمل پر فیصلے کے بعد امریکہ میں احتجاج

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
 اسقاط حمل پر فیصلے کے بعد امریکہ میں احتجاج ’یہ حرف آخر نہیں ہونا چاہیے
اسقاط حمل پر فیصلے کے بعد امریکہ میں احتجاج ’یہ حرف آخر نہیں ہونا چاہیے

 

 

 نیویارک:امریکی کی سپریم کورٹ کی جانب سے خواتین کے اسقاط حمل (ابارشن) کا آئینی حق ختم کیے جانے کے بعد امریکہ کے مختلف مقامات پر احتجاج ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جمعے کی شام امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوئے جن میں سپریم کورٹ کے باہر ہونے والے احتجاج بھی شامل تھا۔ واشنگٹن کے نیویارک سکوائر پر ہونے والے مظاہرے میں ہزاروں افراد نے ’ہم دوبارہ ابھریں گے۔‘ کے نعرے لگائے

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے فیصلے پر ردعمل میں کہا ’یہ عدالت اور ملک کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ووٹرز نومبر میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر اس ایشو کو اٹھائیں۔ اس فیصلے کو حرف آخر نہیں ہونا چاہیے۔‘ وائٹ ہاؤس کے باہر اٹلانٹا سے تعلق رکھنے طالبہ اینسلے کول نے بتایا کہ وہ خوفزدہ ہیں کہ آگے یہ لوگ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ ایس بی اے کی صدر ماجوری ڈیننفیلسر کا کہنا ہے’ہم قانون ساز اداروں، سٹیٹ ہاؤسز اور وائٹ ہاؤس تک میں زندگی بھر اس کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار ہیں۔‘

دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالتی فیصلے کو سراہا ہے۔ انہوں نے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’یہ ہر ایک کے کام کرے گا۔‘ ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے خواتین کی صحت کے بارے میں دستیاب جائزے کے بعد کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے کم خواتین کے متاثر ہونے کی توقع ہے اور یہ ہیں جنہیں پہلے ہی ہیلتھ کیئر تک رسائی کم ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکیوں کی اکثریت عدالتی فیصلے کو درست نہیں سمجھتی۔

اے پی کی جانب سے کیے جانے والے سروے، سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ (این او آر سی) اور دیگر اداروں کی تحقیق واضح کرتی ہے کہ اکثریت ابارشن کے (تمام یا بیشتر حالات میں) قانونی ہونے کے حق میں ہے، تاہم کچھ لوگ ان پابندیوں کی بھی حمایت کرتے ہیں جو حمل کے بعد کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ اسی طرح سرویز میں تسلسل سے یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ 10 میں سے ایک امریکی یہ چاہتا ہے کہ اسقاط حمل کو ہر حال میں غیرقانونی ہونا چاہیے۔ خیال رہے سنہ 1973 میں امریکہ کی خواتین کو اجازت دی گئی تھی جس کو ’روو وی ویڈ فیصلہ‘ کہا جاتا ہے۔