ایران میں صدارتی انتخاب۔ پولنگ جاری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-06-2021
آج ہوگی رائے دہی
آج ہوگی رائے دہی

 

 

تہران:ایران میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے متعلق پولز میں قدامت پسند اور جوڈیشری کے سربراہ ابراہیم رئیسی کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ ابراہیم رئیسی ایران کے سپریم لیڈر کے اہم ساتھی ہیں اور انہیں مستقبل میں ان کا جانشین بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایران میں مخالفین اور چند اصلاحات پسندوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہےکہ متعدد امیدواروں کو الیکشن سے روک کر ابراہیم رئیسی کا کسی سے کوئی سنجیدہ مقابلہ نہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جمعہ کی صبح دارالحکومت تہران میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کی۔

آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ہر ووٹ گنا جاتا ہے لہٰذا آئیں اور اپنے صدر کا انتخاب کریں، یہ آپ کے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ میڈیا رپورٹس کےمطابق الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 40 خواتین سمیت 600 افراد نے رجسٹریشن کرائی تاہم سخت اسکروٹنی کے بعد جیوری نے آخر میں صرف 7 مرد امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا۔ ایرانی صدر حسن روحانی کے پہلے نائب صدر اسحاق جہانگیری اور سابق اسپیکر پارلیمنٹ علی لریجانی سمیت کئی اہم امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔

 آج یران کے صدارتی انتخابات میں چار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے،سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئی کے مطابق قدامت پسند مذہبی رہنما ابراہیم رئیسی کی جیت بڑی حد تک متوقع ہے۔انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت پانے والے سات امیدواروں میں سے تین نے نامزدگی واپس لے لی تھی جس کے بعد 60 سالہ ابراہیم رئیسی کی پوزیشن کو مزید تقویت ملی ہے۔

 ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے الیکشن سے دو روز قبل اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ اور ایران پر بیرونی دباؤ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ خامنہ ای نے ایک تقریر میں کہا کہ ’اگر لوگ پولنگ میں بھرپور طریقے سے شریک نہیں ہوتے تو دشمن کے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ اگر ہم دباؤ اور پابندیوں میں کمی چاہتے ہیں تو لوگوں کی شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے اور نظام کو حاصل عوامی مقبولیت دشمن پر ظاہر ہونی چاہیے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق رہبرِ اعلیٰ کی اپیل کے باوجود انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آؤٹ متوقع ہے کیونکہ لوگ انتخابی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔

ادھر ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے ایرانی وزارت ثقافت کے شعبہ غیرملکی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا کہ دنیا کے 226 اداروں سے تعلق رکھنے والے 500 غیرملکی صحافی 13 ویں صدارتی انتخابات اور شہری - دیہی اسلامی کونسلز کے چھٹے الیکشن کی کوریج کریں گے۔

 ترجمان محمد خدادادی نے منگل کو کہا کہ ان صحافیوں کا 39 ممالک سے تعلق ہے تاہم غیرملکی صحافیوں کا ملک میں داخلہ صرف منفی کرونا ٹیسٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 336 غیرملکی صحافی تہران میں مقیم ہیں اور 160 سے زیادہ کو پریس ویزا جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نمائندے امریکہ، برطانیہ، اٹلی، بحرین، بیلجیم، ترکی، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، چین، روس، جاپان، سوئٹزرلینڈ، فرانس، جرمنی، آسٹریا، سپین، آسٹریلیا، نیدرلینڈز، قطر، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، کینیڈا، کولمبیا، کویت، لبنان، لکسمبرگ، پاکستان، نائیجیریا، آذربائیجان، افغانستان، آرمینیا، کرغیزستان، عراق، عمان، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور شام سے تعلق رکھتے ہیں۔

 ایران کی شوری نگہبان نے سینکڑوں امیدواروں میں سے صرف سات کو صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا تھا لیکن ان میں سے تین امیدوار سابق نائب صدر اور واحد اصلاح پسند صدارتی امیدوار محسن مہر علی زادہ، قدامت پسند رکن پارلیمان علی رضا زاکانی اور ایران کے سابق اعلیٰ جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔