نئی دہلی: دنیا بھر میں بیماریوں پر مرکوز 80 فیصد سے زیادہ جینومک مطالعات اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں کیے گئے ہیں، جبکہ درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک میں ایسے مطالعات کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت (WHO) کے حالیہ تجزیے میں سامنے آئی ہے۔
تجزیے کے مطابق، WHO کے ‘انٹرنیشنل کلینیکل ٹرائل رجسٹری’ پلیٹ فارم پر 1990 سے 2024 کے درمیان عالمی سطح پر 6,500 سے زیادہ جینومک مطالعات رجسٹر کیے گئے، جن میں 2010 کے بعد سیکونسن ٹیکنالوجیز میں ترقی، لاگت میں کمی اور وسیع استعمال کے سبب تیزی دیکھی گئی۔ جینومک مطالعات کے تحت کسی جینوم کی ساخت، فنکشن، نشوونما اور ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ WHO کے مطابق، 1990 سے 2024 کے درمیان سب سے زیادہ جینومک مطالعات
رجسٹر کرنے والے ممالک میں چین پہلے، امریکہ دوسرے اور اٹلی تیسرے نمبر پر ہیں، جبکہ بھارت ٹاپ 20 ممالک میں شامل ہے۔ ‘کلینیکل اسٹڈیز میں انسانی جینومک ٹیکنالوجیز – تحقیقاتی منظرنامہ’ کے عنوان والے تجزیے میں کہا گیا، “تمام جینومک مطالعات میں سے کم و بیش پانچ فیصد تحقیقاتی کام کم اور درمیانے آمدنی والے ممالک میں ہوئے، جبکہ اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں ایسے مطالعات کی تعداد 80 فیصد سے زیادہ تھی۔
تجزیے کے مطابق، کم اور درمیانے آمدنی والے ممالک کو زیادہ تر کثیر ملکی مطالعات میں ہی حصہ لینے والے مطالعہ مقامات کے طور پر شامل کیا گیا۔ مثال کے طور پر، بھارت نے 235، مصر 38، جنوبی افریقہ 17 اور نائجیریا 14 جینومک مطالعات میں حصہ لیا۔ تجزیے کے مطابق، دنیا بھر میں کیے گئے 75 فیصد سے زیادہ جینومک مطالعات کینسر، نایاب بیماریاں اور میٹابولک ڈس آرڈرز پر مرکوز تھے۔
تاہم، اس میں کہا گیا کہ انفیکشن بیماریوں کے لیے انسانی جینوم پر کم مطالعات کیے گئے، جس کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔ محققین نے کہا، عالمی سطح پر انفیکشن بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود، صرف 3 فیصد جینومک مطالعات ان بیماریوں پر مرکوز تھے۔
انہوں نے مزید کہا،تپ دق، ایچ آئی وی انفیکشن اور ملیریا جیسی بیماریاں کئی کم وسائل والے علاقوں میں اہم عوامی صحت کی ترجیحات ہیں، پھر بھی انسانی حساسیت، علاج کے ردعمل یا میزبان-جراثیمی تعاملات کی جانچ کرنے والے جینومک مطالعات بہت کم ہیں۔