پاکستان:راولپنڈی کا ہیرو ’راول‘ کون تھا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-05-2022
پاکستان:راولپنڈی کا ہیرو ’راول‘ کون تھا؟
پاکستان:راولپنڈی کا ہیرو ’راول‘ کون تھا؟

 

 

عبدالخالق بٹ  کی تحریر

 

دکھ کسی ایک کا نہیں ہوتا

یہ مرے گاؤں کی روایت ہے

کبھی گاؤں کی سادہ و بے ریا زندگی میں دُکھ سُکھ سانجھے ہوتے تھے مگر اب یہ روایت ایک بُھولی بسری یاد میں ڈھل گئی ہے۔ پردیس میں کُھلنے والے روزگار کے دروازوں سے در آنے والی ’خوشحالی‘ نے محبت، مُرَوَّت اور مَوَدَّت کو ثانوی مسئلہ بنا دیا ہے۔ یوں محبت پر مصلحت غالب ہے اور شہری و دیہی باشندوں کے رویّوں میں ’من و تو‘ کا فرق مٹ چکا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو شعرِ بالا کے خالق ’راغب اختر‘ کو یہ شکوہ نہ ہوتا:

گاؤں میں اب گاؤں جیسی بات بھی باقی نہیں

یعنی گزرے وقت کی سوغات بھی باقی نہیں

پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’گاؤں‘ کی اصل سنسکرت کا گرام/ग्राम/gram ہے اور یہ لفظ خیبر پختونخوا کے ’بٹ گرام‘ سمیت آج بھی برصغیر کے متعدد مقامات کے ناموں کا جُز ہے۔

’گرام‘ ہی کی ایک صورت ’گام‘ ہے۔ اسے کشمیر کے ’بڈگام اور کول گام‘ کے ناموں میں دیکھا جاسکتا ہے، پھر اس ’گرام‘ کی دوسری صورت ’گراں‘ ہے، شمالی پنجاب میں اس لفظ کا چلن عام ہے، جب کہ اسی ’گراں‘ سے لفظ ’گرائیں‘ بھی ہے، جو ایک ہی گراں/ گاؤں کے باشندے کو کہتے ہیں۔

جس طرح ’گرام‘ سے گام اور گراں کے الفاظ بنے ہیں، ایسے ہی ’گاؤں‘ بھی ہے۔ پنجابی میں گاؤں کا مترادف لفظ ’پِنڈ‘ ہے۔ اردو میں تقریباً متروک ہوجانے والا ’پنڈ‘ پنجابی میں آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

 ’پنڈ‘ کا سب سے معروف حوالہ ’پنڈ دادن خان‘ ہے، جہاں بیٹھ کر اپنے وقت کے سب سے بڑے ہیئت دان ابوریحان البیرونی نے زمین کے قُطر (Radius) کی حیرت انگیز حد تک درست پیمائش کی تھی۔

’پنڈ‘ کی ایک صورت ’پنڈی‘ بھی ہے، اسے پنڈی گھیپ، پنڈی بھٹیاں اور راول پنڈی کے ناموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

’راول پنڈی‘ کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ کبھی ایک گاؤں تھا، جو آج پاکستان کا چوتھا اور پنجاب کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔ غالباً اسی پھلنے پھولنے کا نتیجہ ہے کہ عام بول چال یا تحریری زبان میں جب مطلق ’پنڈی‘ کہا جائے تو اس سے مراد ’راول پنڈی‘ ہوتی ہے۔ اس بات کو خاطرغزنوی کی نظم ’خیبر میل‘ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، جس کا ایک شعر ہے:

پنڈی میں تھی بارش کم کم

ریل چھکا چھک پہنچی جہلم

تذکرہ نگاروں کے مطابق 1493 عیسوی میں یہاں کے گکھڑ حکمران جھنڈا خان نے گاؤں ’راول‘ کے نام پر اس شہر کا نام ’روال پنڈی‘ رکھا۔ مگر سوال یہ ہے خود ’راول‘ کون تھا؟

کہا جاتا ہے کہ ’پنڈی بلندی پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ہندو راجا راول نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کے بعد اس جگہ کا نام راول پنڈی مشہور ہوگیا۔‘

کہنے کو تو ’راجا راول‘ کا یہ قلعہ وقت کے بے رحم تھپیڑوں کا شکار ہوگیا ہے مگر وہ مقام جہاں اس قلعے کے شکستہ آثار موجود ہیں آج بھی ’پرانا قلعہ‘ کے نام سے مشہور ہے، اور اس جگہ کو تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔

راول پنڈی جس خطے میں واقع ہے وہ سطح مرتفع پوٹھوار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نام ’پوٹھوار‘ کی اصل ’پُٹھوار‘ ہے، جو دولفظوں ’پٹھ‘ اور ’وار‘ سے مرکب ہے۔ اس میں ’پُٹھ‘ وہی ہے جسے ہم اردو میں پیٹھ اور فارسی میں ’پُشت‘ کے نام سے جانتے ہیں جب کہ ’وار‘ اکثر تراکیب میں بطور صفت یا نسبت آتا اور ’والا‘ کے معنی دیتا ہے۔

اسے ’قصوروار، ہموار اور سوگوار‘ جیسی تراکیب سے سمجھا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ وسیع خطہ جانوروں کی پُشت کی طرح نشیب و فراز کا منظر پیش کررہا ہے، سو اس نسبت سے اسے ’پُٹھوار‘ پکارا جاتا ہے۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ ’پُٹھوار‘ کے نام سے شہرت پانے سے پہلے یہ خطہ یہاں بہنے والے دریا کی نسبت سے ’وادی سوہان‘ کہلاتا تھا۔ ’سوہان‘ وہی دریا ہے جس کا نام اب کثرت استعمال کے سبب ’سواں‘ پکارا جاتا ہے۔

دراصل اس دریا کو ’سوہا‘ قوم سے نسبت ہے جو کبھی لبِ دریا آباد تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قبیلہ یہاں سے نقل مکانی کرکے جہلم کے پاس جا بسا اور جس جگہ یہ قبیلہ آباد ہوا وہ اس قوم کی نسبت ’سوہاوہ‘ مشہور ہوگیا۔ اس وضاحت کے بعد اب مارگلہ پہاڑیوں کے مقام ’پیر سوہاوہ‘ کے نام پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ مشہور بزرگ بھی اسی قوم کے ایک فرد تھے۔

اسلام آباد کا علاقہ دارالحکومت قرار پانے سے پہلے راولپنڈی کا حصہ تھا۔ اس شہر کا شمار دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام آباد کی خوبصورتی میں ’مارگلہ‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

لفظ ’مارگلہ‘ کی اصل سے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں کہ دنیا بھر میں اکثر مقامات کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک سے زیادہ آراء موجود ہیں اور ہر رائے اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہے۔

خیر بات تھی ’مارگلہ‘ کی، جس کے متعلق خیال ہے کہ ’مارگلہ کے معنی گلا کاٹنے کے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان پہاڑیوں کو عبور کرنے والے قافلوں کے گلے کاٹ دیے جاتے تھے۔

ایک اور روایت کے مطابق ٹیکسلا پر حملہ آور سفید ہن قبیلے کے سردار کا نام میہیرا گلا (Mihiragula) تھا، جس نے قتلِ عام کے بعد ان پہاڑیوں پر جشن منایا اور یوں یہ پہاڑیاں اس سے منسوب ہوگئیں۔ تاہم بعد میں کثرت استعمال کے سبب پہاڑیوں کا نام ’میہیرا گلا‘ سے ’مارگلہ‘ ہوگیا۔

قیاس کہتا ہے کہ ’مارگلہ‘ کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک پہلو نظر انداز ہوگیا وہ یہ کہ اگر ’مارگلہ‘ کو پاکستان کے ’کھائی گلہ‘ اور ’ڈارگلہ‘ کے تناظر میں سمجھا جائے تو شاید ایک اور نقطۂ نظر سامنے آجائے۔ آپ یقیناً مری، ایبٹ آباد اور آزاد کشمیر میں چھانگلہ گلی، جھیکا گلی، نتھیا گلی اور سدھن گلی وغیرہ سے واقف ہوں گے۔ پہاڑوں کے درمیان موجود یہ ’گلی‘ جب قدرے کشادہ ہو تو ’گلہ‘ کہلاتی ہے، ’کھائی گلہ‘ اور ’ڈار گلہ‘ بھی ایسی ہی کشادہ گلیاں ہیں۔

اس وضاحت کے ساتھ اب ’مارگلہ‘ کو دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے، اول ’مار‘ سے ’مارکُٹائی‘ مراد ہوسکتے ہیں۔ دوم فارسی میں سانپ کو ’مار‘ کہتے ہیں، چوں کہ یہ علاقہ جنگلات سے پٹا ہوا ہے اس لیے یہاں سانپوں کا ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ ممکن ہے کہ اسی نسبت سے اس کو ’مارگلہ‘ پکارا گیا ہو۔