پاکستان : پارلیمنٹ میں پریس گیلری پر لگ گیا تالہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-09-2021
صحافیوں کے حق میں سیاستداں
صحافیوں کے حق میں سیاستداں

 

 

اسلام آباد: حد کردی سرکار نے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ میں صحافیوں کو پریس گیلری سے باہر نکال کر تالے ڈال دئیے گئے۔ یہ تاریخ کا سب سے انوکھا واقعہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ  پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ملک کے  صدر مملکت کے خطاب کے دوران کل اپوزیشن کا احتجاج ایک معمول کی روایت ہے اور حکومت اس کے لیے نہ صرف تیار ہوتی ہے بلکہ اسے کچھ زیادہ سنجیدہ بھی نہیں لیتی۔

لیکن صدر مملکت عارف علوی کے پیر کے روز پارلیمان سے خطاب کے وقت ایوان کے اندر، پارلیمانی گیلریوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایک نہیں کئی احتجاج اور مظاہرے دیکھنے کو ملے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے صحافیوں کی جانب سے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف پارلیمانی پریس گیلری سے واک آؤٹ کے خدشے کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار پریس گیلری کو تالے لگوا کر صحافیوں کا داخلہ بند کر دیا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے صدارتی خطاب کی کوریج کے لیے صحافیوں کو ماضی کے برعکس محدود تعداد میں کارڈز جاری کیے گئے بلکہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے پارلیمان کور کرنے والے صحافیوں کے بجائے اپنے من پسند افراد کو کارڈز جاری کیے تاہم کارڈز رکھنے والوں کو بھی کوریج کی اجازت نہ ملی۔ جس کے باعث پارلیمانی رپورٹرز نے پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر مہمانوں کی آمد کے لیے بچھائے گئے ریڈ کارپٹ پر دھرنا دے دیا۔

awaz

صحافیوں کے اس دھرنے میں سابق سپیکر ایاز صادق سمیت مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام سمیت متعدد جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

صحافیوں کے دھرنے کے دوران گورنر پنجاب، نیول چیف سمیت غیر ملکی سفیر صدر کا خطاب سننے پارلیمان آئے اور دھرنے کے درمیان سے گزر کر ایوان میں مہمانوں کی گیلریوں پہنچے۔

سابق سپیکر ایاز صادق نے قرار دیا کہ ’سپیکر کی جانب سے پارلیمانی پریس گیلری بند کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ ایسا کبھی آمرانہ ادوار میں بھی نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ سپیکر نے نہیں بلکہ کسی اور نے کیا۔‘ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ ’عمران خان چاہتے ہیں کہ سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔

پاکستانی صدر کا خطاب شروع ہوا تو صحافی پارلیمانی راہداری سے اٹھے اور سپیکر چیمبر کے باہر جا کر دھرنا دے دیا۔ صحافی پریس گیلری کو بحال کرو، سپیکر کو آزاد کرو، صدر مملکت کی توہین نامنظور کے نعرے بلند کرتے رہے۔

دوسری جانب ایوان کے اندر صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کر دیا۔ جس میں وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی پالیسیوں کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی گئی۔

اپوزیشن ارکان نے مجوذہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ تاہم صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا احتجاج ٹی وی پر نہیں دکھایا۔ اپوزیشن کے احتجاج میں قومی اسمبلی میں قائد حزب شہباز شریف، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی، بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر کافی متحرک نظر آئے۔

 ایوان میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شاہراہ دستور پر صحافیوں کے اتوار سے جاری دھرنے میں پہنچ گئے جہاں انھوں نے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

 پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافتی تنظیموں نے مجوذہ پی ایم ڈی اے بل کے خلاف اتوار سے دھرنا دے رکھا ہے جس سے شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا۔

 اس دھرنے میں صحافیوں کے علاوہ وکلا تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہیں۔