پاکستان:سپرٹیکس کے اعلان سے کاروباری حلقوں میں ہلچل

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
پاکستان:سپرٹیکس کے اعلان سے کاروباری حلقوں میں ہلچل
پاکستان:سپرٹیکس کے اعلان سے کاروباری حلقوں میں ہلچل

 

 

اسلام آباد: پاکستان کی وفاقی حکومت نے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے سپر ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ معیشت بہتر بنانے کے لیے امیر طبقے پر ٹیکس لگا کر غریبوں کو فائدہ پہنچایا جائے گا۔ جس سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ سپر ٹیکس ہوتا کیا ہے اور اس سے حکومت کو کتنے پیسے ملیں گے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے بڑی صنعتوں اور زیادہ آمدن پر ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان ہے۔ جمعے کو وزیراعظم شہباز شریف اور بعد میں وزیر خزانہ کی نئے ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان شروع ہو گیا اور کاروباری ہفتے کے آخری روز 100 انڈیکس میں دو ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ٹیکس میں اضافہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں منفی رجحان رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ٹیکس میں اضافہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں منفی رجحان دیکھا جارہا ہے۔  

معاشی ماہرین کے مطابق سپر ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہوتا ہے جو حکومتیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدنی پر ایک اضافی طور پر لگاتی ہیں۔ پاکستان کے معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ’شہریوں یا ایک خاص طبقے پر لگائے جانے والے اضافی ٹیکسوں کے بعد ان کی ٹیکس کی مد میں آنے والی آمدنی کے اوپر کچھ فیصد کا مزید ٹیکس سپر ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے امیر طبقے پر لگائے جانے والے ’سپر ٹیکس‘ کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ پاکستان میں امیر لوگوں اور اداروں کی تعداد بہت کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’امیروں پر ٹیکس لگانے کی ساری بحث محض ایک مفروضہ ہے۔ امیروں اور بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے۔ ان پر سپر ٹیکس لگانے سے بجٹ خسارہ کم نہیں ہو گا۔ اس سے ریوینیو میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ریونیو اکٹھا کرنے کی تمام کوششیں غیر مؤثر ہیں کیونکہ پاکستانی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ اس سے زیادہ پیسے اکٹھے کیے جا سکیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان کی معیشت اتنی کمزور ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ امیروں پر ٹیکس لگانے اور ریونیو جنریشن کے دوسرے اقدامات محض ’نمبرز‘ ہیں۔‘

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ حکومت بجٹ خسارہ صرف دفاعی اور غیرترقیاتی بجٹ کم کر کے اور دیگر حکومتی اخراجات کم کر کے ختم کر سکتی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔

ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان بھی قیصر بنگالی سے اتفاق کرتے ہیں کہ سپر ٹیکس کا نفاذ صرف نمبر دکھانے کے لیے ہے اور اس سے معیشت پر کوئی بڑا مثبت اثر نہیں پڑ سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ ’سپر ٹیکس ایک اضافی ٹیکس ہوتا ہے جو آمدنی کے حساب سے عائد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے 2010 میں بھی سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا جب سیلاب آیا تھا تاہم حالیہ سپر ٹیکس کا زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق پاکستانی معیشت کی رفتار اتنی اچھی نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کو کوئی مدد فراہم کر سکے۔ ’ اگر معیشت کی رفتار اتنی آہستہ ہے تو اس میں ٹیکس کہاں سے ملے گا؟ یہ صرف بک بیلنس کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔

ایسے ٹیکس اور ان کے نمبرز کاغذوں میں دکھانے کے لیے ہوتے ہیں اور ان نمبرز کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے معیشت کو کوئی بہت بڑا فائدہ ہونے جا رہا ہے یا بجٹ خسارہ ختم یا کم ہو جائے گا۔‘ دوسری جانب بڑی صنعتوں اور زیادہ آمدن پر ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔

جمعے کو وزیراعظم شہباز شریف اور بعد میں وزیر خزانہ کی نئے ٹیکس لگانے کے اعلان کے بعد سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان شروع ہو گیا اور کاروباری ہفتے کے آخری 100 انڈیکس میں دو ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ٹیکس میں اضافہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں منفی رجحان رہا۔