پاکستان :مینار پاکستان میں لڑکی کو برہنہ کرنےکے واقعہ کی مذمت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پاکستان میں شیطانی رقص
پاکستان میں شیطانی رقص

 

 

لاہور : پاکستان پھر شرمندہ ہے ،انسانیت شرمسار ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور گریٹر اقبال پارک مینار پاکستان گراؤنڈ میں منچلوں کی جانب سے زدو کوب کا شکار ہونے والی خاتون ٹک ٹاکر عائشہ کے معاملہ نے ملک کا سر جھکا دیا ہے ۔ مینار پاکستان میں مشہور ٹک ٹاکر کو سینکڑوں افراد نے بے لباس کردیا تھا۔

جس پر قومی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ متاثرہ لڑکی کی درخواست پر 400 نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا ہے۔

 ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ویڈیو میں موجود واقعے میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے نادرا کے ڈیٹا اور دیگر جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جلد ہی ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔

 وزیراعظم نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم دے دیا ہے۔

 دوسری جانب متاثرہ لڑکی کا کہنا ہے کہ ’یاد گار پاکستان جیسی جگہ پر اس وطن کی بیٹی کے سر عام کپڑے پھاڑنے کا واقعہ بے حسی اور جاہلانہ سوچ کی عکاسی ہے۔ وہ اس معاملہ میں ملوث افراد کو سزا دلوائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گی اور انہیں عبرت کی علامت بنانا چاہتی ہیں تاکہ کسی اور بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہوسکے۔‘

 واقعہ پیش کیسے آیا؟ گریٹر اقبال پارک میں ٹک ٹاکر عائشہ کے ساتھ ہونے والے واقعے کی اطلاع پر وہاں پہنچنے والے ڈالفن اہلکار زمان علی نے بتایا کہ ’14 اگست کی شام سات بجے ون فائیو پر کال چلی کہ آزادی چوک پر شدید رش ہے جب ہم ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے تو بہت رش تھا ایک طرف ہجوم تھا اور آوازیں لگ رہی تھیں لڑکی مر گئی لڑکی مر گئی۔‘

ان کے مطابق کچھ افراد لڑکی کو اٹھائے وہاں سے نکلنے کی کوشش میں تھے جبکہ سات آٹھ سو افراد اسے نوچنے کی کوشش میں تھے۔۔

 زمان نے کہا کہ ’لڑکی کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور نڈھال تھی میں وہاں اکیلا تھا لیکن کوشش کر کے لڑکی کو وہاں سے نکالا تو ہجوم نے پتھراو کیا جس سے میں بھی زخمی ہوگیا۔ پھر دیگر اہلکار آئے لاٹھی چارج کیا اور لڑکی کو نکالا پارک کے کینٹین پر لے گئے انہیں چادر دی اور پانی پلایا۔

  انہوں نے کہا کہ ’جب لڑکی کو وہاں بیٹھایا وہ ہواس باختہ تھیں جلدی سے ایمبولینس اور مزید نفری کو کال کی کیونکہ باہرسیکنڑوں افراد جمع تھے بڑی مشکل سے انہیں نکال کر گھر پہنچایا۔‘ متاثرہ لڑکی عائشہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ ان کو خود سمجھ نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کوئی ڈراؤنا خواب تھا یا حقیقت میں لوگ اتنے درندے ہیں۔

 انہوں نےواقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں یوم آزادی 14اگست کے دن اپنے چھ ساتھیوں کےساتھ مینار پاکستان گئی اور وہاں ٹک ٹاک ویڈیو بنارہی تھی کہ کچھ لڑکے آگئے اور سیلفی کے لئے کہا انکار پر انہوں نے بحث شروع کر دی اسی دوران 300 سے 400 افراد نے ان پرحملہ کردیا اس کے بعد وہ بری طرح ہجوم میں پھنس گئیں، بھاگ دوڑ میں وہاں ایک پانی کا تالاب نظر آیا سوچا اس میں کود جاؤں مگر مجھ سے ایسا نہ ہوا، 15 پر کال کی مگر وہ بھی کام نہ آئی، لوگ میرے بال نوچتے رہے جسم نوچتے رہے۔‘

hانہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’حملہ آوروں نے اس حد تک دھکا دیا اور کھینچتے رہے کہ میرے کپڑے بھی پھٹ گئے اور اس کے بعد ایک ہجوم نے مجھے اٹھا لیا اور ہوا میں اچھالنے لگے، میں دہائی دیتی رہی مگر کسی نے میری نہیں سنی، حملہ آوروں نے انگوٹھی اور کان کی بالیاں، موبائل فون اور کچھ دیگر قیمتی سامان چھین لیا۔ بعض لوگ مددکےلئے بھی آئے مگرکچھ نہ ہوا۔

‘  عائشہ کے مطابق: ’مجھے یقین نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو گا۔ 14اگست آزادی کا دن تھا اور میرے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی۔ میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تو مجھے یہ سزا کیوں ملی؟ جومیرے ساتھ ہوا ہے وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ میری اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ کوئی ایسا قانون بنایاجائے دوبارہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔‘

 انہوں نے کہاکہ وہ واقعے کی تہہ تک جائیں گی اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گی۔

 انہوں نے گریٹر اقبال پارک کی سکیورٹی پر بھی سوال اٹھایا انہوں نے کہا کہ شہر کا اتنا بڑا پارک ہے وہاں سکیورٹی عملہ موجود ہونے کے باوجود کسی نے انہیں بچانے کی کی کوشش کیوں نہیں کی؟

 قانونی کارروائی

 پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا ہے اور ویڈیوز جمع کرنا شروع کر دی ہیں۔

 ترجمان پنجاب حکومت فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ گریٹر اقبال پارک واقعے میں ملوث ان کرداروں کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دی گئی ہے۔ پولیس حکام ناردا اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سائنٹفک طریقے سے ان سمیت تمام افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔ ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی فوٹیج وائرل ہو نے پرپولیس نے 400 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔