پاکستان:اپوزیشن پارٹیوں کا اتحادبھی نہ روک سکاالکٹرک ووٹنگ مشین بل

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 17-11-2021
ووٹنگ مشین بل کے خلاف متحدہوئیں پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں
ووٹنگ مشین بل کے خلاف متحدہوئیں پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں

 

 

اسلام آباد:پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابات ترمیمی بل 2021 پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور ہو گئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابات ترمیمی بل 2021 پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی۔پارلیمنٹ نے انتخابات ترمیمی بل 2021 پر تحریک کثرت رائے سے منظور کر لی، تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔ ۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک کی شدید مخالفت کی گئی لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک پر ووٹنگ کے لیے رائے شماری کا حکم دیا۔ دوسری طرف  پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں الکٹرک ووٹنگ مشین کے ذریعے اگلے عام انتخابات کرائے جانے کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔حالانکہ عمران خان حکومت اس معاملے میں مصر ہے اور ایوان سے متنازع انتخابی اصلاحات بل کو منظورکرانا چاہتی ہے۔اس سلسلے میں ایوان کا مشترکہ اجلاس بھی بلایاگیا تھا جس میں اپوزیشن کا اتحاد دیکھنے کو ملا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا اگر اپوزیشن کے اعتراضات کے باوجود متنازع انتخابی اصلاحات کے بل کو منظور کیا گیا تو ہم آج سے ہی اگلے الیکشن کو نہیں مانیں گے۔

بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ وہ اس اقدام کے خلاف عدالت بھی جائیں گے۔

اس سے قبل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومتی حکام عوام کے پاس نہیں جا سکتے اس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہیتے ہیں۔

بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے ای وی ایم کو ’ایول اینڈ ویشیس مشین‘ قرار دیا۔ انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہ وہ اس اجلاس کو موخر کریں اور اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ بل کا قانون منظور ہوا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔

اجلاس کے دوران اس وقت بدمزگی پیدا ہوئی جب شاہ محمود قریشی کے خطاب کے بعد پی پی ارکان کی جانب سے بلاول بھٹو کو مائیک دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس موقع پر پی پی کے عبد القادر مندوخیل کی نامناسب گفتگو پر اسپیکر غصے میں آ گئے اور انہیں کہا کہ ’تمیز سے رہیں ورنہ باہر نکلوا دوں گا‘ اس وقت سکیورٹی سارجنٹس نے سپیکر ڈائس کو گھیرے میں لے لیا۔

اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت ارکان شریک ہیں۔ بدھ کو مشترکہ اجلاس کے لیے 12 بجے کا وقت مقرر تھا تاہم یہ ایک گھنٹے سے زائد وقت کے بعد شروع ہوا۔

پارلیمنٹ پہنچنے پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تعداد پوری ہے، مشترکہ اجلاس میں اپنا جواب دیں گے۔ آج کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے متعدد بل پیش کیے جائیں گے۔

حکومت ان کو آسانی سے پاس کرائے جانے کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گی۔ 11 نومبر کو بھی مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا تاہم حکومتی اتحادیوں کے بعض معاملات پر تحفظات کے باعث اس کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ 15 نومبر کو وفاقی وزرا فواد چوہدری اور شیخ رشید نے دعوٰی کیا تھا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں اور اب وہ حکومت کو ووٹ دیں گی۔

اس اجلاس کون کون سے بل پیش کیے جانے کا امکان ہے اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ اجلاس میں آئی ووٹنگ، انتخابی اصلاحات، الیکٹرونک ووٹنگ مشین، ایف اے ٹی ایف سے متعلق، اینٹی ریپ بل، اسلام آباد میں کرایہ داری کے قانون سے متعلق بل اور فیملی لاز سے متعلق بھی بل پیش کیے جائیں گے۔

ان کے مطابق ’اتحادی ہمارے ساتھ ہیں جبکہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں کلبھوشن بل بھی پیش کیا جائے گا۔

اسی طرح اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بارہ کہو میں یونیورسٹی کے قیام، سٹیٹ بینک میں اصلاحات کے علاوہ حیدر آباد ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا بل بھی پیش کیا جائے گا۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی صدارت میں منگل کی شام ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قانون سازی کا راستہ روکا جائے گا۔ شہباز شریف نے حکومتی اقدامات کو سیاہ قانون سازی قرار دیتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے تمام ارکان کو مشترکہ اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔