پاکستان- اب عمران خان کے نام پر وزیراعظم اور صدر مملکت میں ٹکراؤ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
پاکستان- اب عمران خان کے نام پر  وزیراعظم اور صدر مملکت میں ٹکراؤ
پاکستان- اب عمران خان کے نام پر وزیراعظم اور صدر مملکت میں ٹکراؤ

 

اسلام آباد:  وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت کے خط کا جواب تحریر کردیا ہے جس میں انہوں نے صدر کے خط کو پی ٹی آئی کی پریس ریلیز قرار دیا ہے۔

 وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے خود کو لکھے گئے خط کا جواب دے دیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے جوابی خط میں صدر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں اور آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں۔ آپ کا خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔
 
وزیراعظم نے 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط میں کہا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہےمیں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ خط میں آپ نے جولب و لہجہ استعمال کیا، اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوں۔
 
شہباز شریف نے مزید کہا ہے کہ 3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے سابق وزیراعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے جب کہ اس کے علاوہ کئی مواقع پر آپ منتخب حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آ رہے ہیں۔
 
انہوں نے صدر کو کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر عمل کیا ہے۔
 
شہباز شریف نے مزید لکھا ہے کہ تمام افراد نے قانون کے مطابق داد رسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔ جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کر دیا۔ پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظر انداز کر دیا۔
 
 وزیراعظم کا خط میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق، جمہوریت سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی نہیں دیکھی گئی، لیکن آپ نے بطور صدر عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود وقیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
 
شہباز شریف نے اپنے خط میں ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی طرف دلاتا ہوں جس میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر چکی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔ رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی تفصیل درج ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی۔
 
انہوں نے لکھا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے۔ متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ رانا ثنا اللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا۔ ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رُکن کو بھی معاف نہ کیا گیا۔ سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا لیکن افسوس بطور صدر آپ نے ایک بار بھی اِن میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔
 
 شہباز شریف نے کہا کہ آپ انسانی حقوق، آئین، قانون کی خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے۔ آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر کر دوں۔
 
وزیراعظم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے تحلیل کی گئیں۔ آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی بلکہ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نےعام، پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دی۔ یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا۔ آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کر دیا۔
 
انہوں نے کہا کہ آپ نے شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کر دیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہو جائے گا۔ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جو افسوسناک ہے۔ آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔
 
الیکشن کرانے کی ذمے داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے اور الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے طے کرنا ہے کہ شفاف وآزادانہ انتخاب  کیلیے آرٹیکل 218 تین کے تحت سازگار ماحول موجود ہے۔
 
 ان کا کہنا تھا کہ صدر نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزرا کے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر اعتراض نہیں کیا۔ سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کر رہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق 15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں۔
 
شہباز شریف نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 48 کلاز وَن کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم۔ وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں۔
 
وزیراعظم نے اپنے جوابی خط میں صدر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں۔ آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر کاربند ہیں۔ حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے اور ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طور پر منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔
 
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا۔