پاکستان : بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں 4 فیصد اضافہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-04-2021
اخلاقی پستی کا نمونہ
اخلاقی پستی کا نمونہ

 

 

 منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی ۔ اسلام آباد

پاکستان یوں تو سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ قرض کے بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی اور مذہبی شدت پسندی کے سبب ملک کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔سڑکوں سے ایوان تک ہنگامہ برپا ہے۔کہیں حکومت اپنی عزت بچاتی نظر آرہی ہے تو کہیں ساکھ جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لئے مزید خبریں آرہی ہیں۔اب خبر ہے کہ سال 2020 کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت، مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف 2 ہزار 960 بڑے جرائم درج ہوئے ہیں۔اخلاقی گراوٹ کا ایک اورنمونہ۔ سماج کی پستی کا ایک اور ثبوت ۔

پاکستان کے اخبار ’ڈان‘کی رپورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے جاری کردہ اعدادو شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس میں 51 فیصد متاثرین بچیاں اور 49 فیصد بچے ہوتے ہیں۔ سال 2020کے ظالمانہ اعداد و شمار کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار کو مرتب کیا گیا ہے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا، لاپتا بچے اور بچپن میں شادیوں کے اعداد و شمار شامل ہیں۔مذکورہ رپورٹ تنظیم 'ساحل' نے گزشتہ برس 84 قومی اور علاقائی اخبارات میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی بنیاد پر مرتب کی ہے جسے ایک ورچوئل تقریب میں متعارف کروایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں 4 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں 985 بدفعلی، 787 ریپ، 89 پورنوگرافی جبکہ 80 بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی استحصال کے بعد قتل کے تھے۔ ان کے علاوہ بچوں کے اغوا کے 834، لاپتا ہونے کے 345 اور بچپن کی شادیوں کے 119 کیسز رپورٹ ہوئے، پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کو کسی نہ کسی طرح زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔شکار زیادہ تر بچوں کا تعلق 6-15 سال کی عمر سے ہے مزید برآں چند ماہ سے لے کر 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 80 فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے شخص کی بچوں سے شناسائی تھی۔ ان میں ایک ہزار 780 کیسز میں زیادتی کرنے والا بچوں کا جان پہچان کا شخص، 109 کیسز میں خدمات فراہم کرنے والا مثلاً استاد، دکاندار ڈرائیور وغیرہ شامل تھے۔مجموعی طور پر 91 کیسز میں خاندان کے اراکین اور رشتہ دار، 92 کیسز میں پڑوسی ملوث تھے جبکہ صرف 468 کیسز میں بچوں کو اجنبیوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے 2 ہزار 960 کیسز میں سے ایک ہزار 915 (65 فیصد) کیسز دیہی علاقوں جبکہ ایک ہزار 45 (35 فیصد) شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔

ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو نے پورنوگرافی کے کیسز کا تجزیہ پیش کیا جو سال 2019 میں 70 کیسز کے مقابلے سال 2020 میں 89 کیسز تک بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور خطرے کی بات یہ ہے کہ اغوا کے بعد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز میں سال 2019 کے مقابلے میں 91 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ساحل کی بورڈ آف ڈائریکٹر ثنا میر اور خیر سگالی سفیت فریحہ الطاف نے بچوں کے تحفظ کی اہمیت پر بات کی، اس ورچوئل تقریب میں رکن قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے بھی شرکت کی۔