پاکستان نے کبھی متحرک اورکبھی بڑا منفی کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پاکستان کے کردار پر ڈالی روشنی
پاکستان کے کردار پر ڈالی روشنی

 

 

 واشنگٹن:افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد طالبان نے ملک پر قبضہ کرلیا تھا۔ جس کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کی حکمت عملی پر تنقید کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی اس پر سوال اٹھ رہے تھے۔ ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے بھی بہت سخت تنقید اور اعتراض کیا تھا۔

اسی سلسلے میں آج اراض امریکی قانون سازوں کی جانب سے افغانستان کی حالیہ صورت حال کا الزام وائٹ ہاؤس پر لگائے جانے کے بعد امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اصرار کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں بدترین حالات کے لیے تیاری کر رکھی تھی۔

 مطابق ٹھنڈے مزاج کے حامل امریکی وزیر خارجہ کو اپنے کیریئر کی مشکل ترین سماعت کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی 20 سالہ جنگ کے خاتمے پر کانگریس کے سامنے پیر کو پہلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر جہاں حریف ری پبلکنز نے نعرے بلند کیے، مقتول فوجیوں کی تصاویر لہرائیں اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، بلنکن نے بار بار کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا وقت مقرر کیا تھا۔

بلنکن نے ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کو بتایا: ’ہمیں ایک ڈیڈ لائن وراثت میں ملی تھی، ہمیں کوئی منصوبہ وراثت میں نہیں ملا تھا۔‘ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ٹرمپ کے فروری 2020میں طالبان کے ساتھ معاہدے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، نائن الیون کے بعد سے طالبان مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے۔

پاکستان کا کردار

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے آپ کو عالمی برادری کے ساتھ کھڑا کرنا ہوگا تاکہ وہ افغانستان کے حوالے سے عالمی برادری کی توقعات پر پورا اتر سکے۔وہ منگل کو ایوان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے افغانستان سے انخلا کے معاملے پر ممبران کی جرح کا سامنا کر رہے تھے۔

میساچوسٹس سے نمائندے بل کیٹنگ نے اینٹنی بلنکن سے سوال کیا کہ ’پاکستان نے گذشتہ 20 سالوں کے دوران بڑا متحرک اور بعض اوقات بڑا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے طالبان کے نام کو بنانے میں کردار ادا کیا ہے اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بیان دیا تھا کہ افغانستان نے غلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں۔ ہم سفارتی سطح پر یہ سنتے رہے ہیں کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ مشکل تعلقات رہےہیں۔ تو اب جب ہم آگے کی جانب جا رہے ہیں اور خطے میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں تو ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کیسے پرکھیں گے؟

اس سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ’پاکستان کے گذشتہ 20 سالوں کے دوران کردار کے بارے میں آپ نے درست نشاندی کی ہے۔ یہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں شرط لگانے کی طرح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس میں حقانی گروپ سمیت طالبان کے ممبران کو مدد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں دیگر نکات بشمول انسداد دہشتگردی بھی شامل ہے۔ اس میں افغانستان کے بارے میں ہمارے مفادات کا ٹکراؤ بھی شامل ہے۔ اس میں انڈیا کا کردار بھی شامل ہے جو وہ افغانستان میں ادا کررہا ہے۔ تو اس کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جو کچھ بھی کیا گیا ہے وہ کبھی ہمارے مفادات کے خلاف کیا گیا اور کبھی حق میں۔

اینٹنی بلنکن کے مطابق: ’آگے بڑھنے کے دوران ہم تمام ممالک بشمول پاکستان سے یہ چاہیں گے کہ وہ ان توقعات پر پورا اترے جو عالمی برادری کی ہیں۔ تو پاکستان کو اپنے آپ کو عالمی برادری کے ساتھ کھڑا کرنا ہوگا تاکہ وہ ان معاملات پر کام کر سکے اور توقعات پر پورا اتر سکے۔

 امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے پیر کو کانگریس کے قانون سازوں کے تنقیدی اور چبھتے ہوئے سوالات کے جواب میں اس بات پر اسرار کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں بد ترین حالات کی بھی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ وہ کانگریس کے سامنے دو روز تک جرح کا سامنا کریں گے، یہ سیاسی حریفوں کے لیے پہلا موقع ہے کہ وہ طالبان کی تیزی سے جیت پر امریکی انتظامیہ کو براہ راست چیلنج کریں کیونکہ صدر جو بائیڈن نے 20 سالہ امریکی فوجی مشن کا اختتام کیا ہے۔

اینٹنی بلنکن نے ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکیوں کی حفاظت کے بارے میں ’مستقل متوجہ‘ تھی اور وہ مغربی حمایت یافتہ حکومت کے ’مستقل اقتدار‘ میں رہنے کے بارے میں متعدد منظرناموں کا مسلسل جائزہ لے رہی تھی۔