پاکستان: حکومت لوگوں کوغائب کرائے گی تو تلاش کون کریگا: عدالت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-01-2022
پاکستان: حکومت لوگوں کوغائب کرائے گی تو تلاش کون کریگا: عدالت
پاکستان: حکومت لوگوں کوغائب کرائے گی تو تلاش کون کریگا: عدالت

 

 

اسلام آباد:پاکستان میں صحافی غائب ہورہے ہیں مگر ان کی تلاش ممکن نہیں کیونکہ ان کے غائب ہونے میں جب خود حکومت ملوث ہوگی تو پھر تلاش کون کرے گا؟ یہ کسی اپوزیشن کا الزام نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا مشاہدہ ہے۔ عدالت نے منگل کو صحافی مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’جبری گمشدگیوں کے کیس میں بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ یہ عدالت، وکیل صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کر سکتا۔‘

عدالت میں لاپتہ طالب علموں کے والد نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے دونوں بیٹے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور 2016 سے لاپتہ ہیں۔

- انہوں نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پر درج ہوئی

’جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔ میں نے ایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟

یہ روداد سننے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے۔

رانہوں نے کہا کہ ’دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا۔ اٹارنی جنرل صاحب جواب دیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بے بسی سے کہا کہ ’میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘ اور خاموش ہو گئے۔

یہ سن کر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟

سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا اس بیچارے نے تو کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔‘ یہ جواب سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟

ےط۸’یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں۔ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ یہ ایسی بات ہےکہ ریاست کو ہل جانا چاہئے تھا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مابین طویل مکالمے میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے واقعات سے غیر ریاستی عناصر کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں۔

’عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے۔ یہ کورٹ کسی کو طلب کر کے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتہ؟ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہو سکتے ہیں لیکن اب ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پر شک کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔ کمیشن نے جے آئی ٹی بنائی اور رپورٹ دے کر کہا کہ ان کی جان تو چھوٹ گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔

عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی اور حتمی دلائل کے لیے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔