پاکستان :ٹی ایل پی سے ہٹے گا ’ممنوعہ‘ کا ٹھپہ ۔۔حکومت نے ٹیک دئیے گھٹنے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کامیاب
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کامیاب

 

 

اسلام آباد : پچھلے 10 دنوں سے سڑکوں پر موجود ممنوعہ تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان اتوار کو مذاکرات کامیاب ہو گئے۔مگر یہ سب کس قیمت پر ہوا اس پر پردہ پڑا ہے۔ بس اس بات کا اعلان کردیا گیا ہے کہ معاملات طے ہوگئے ہیں ۔  لیکن غیرسرکاری طور جو باتیں سامنے آئی ہیں ،ان سے لگ رہا ہے کہ حکومت نے تقریبا گھٹنے ٹیک دئیے ہیں اور بہت جلف تنظیم پر عائد پابندی ہٹا لی جائے گی۔معاہدے کے تحت کالعدم تنظیم آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کرےگی اور آئندہ بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔

حکومت اور ٹی ایل پی  کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ٹی ایل پی فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی جبکہ حکومت بھی ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے گی۔

اتوار کی شب پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔اتوار کو کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کی پریس کانفرنس میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ یہ معاہدہ کسی کی فتح یا شکست نہیں ہے۔

 معاہدے کے نتیجے میں ٹی ایل پی فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی جبکہ حکومت بھی ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے گی۔

ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن نے حکومت کو گارنٹی دی ہے کہ آئندہ کالعدم تنظیم ٹی ایل پی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریگی۔علما کے ذریعے حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے اہم نکات سامنے آگئے جس کے مطابق کالعدم تنظیم آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کرے گی، کالعدم تنظیم آئندہ بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔

حکومت کالعدم تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کرے گی تاہم دہشت گردی اورسنگین مقدمات میں ملوث سعد رضوی اوردیگر کارکنان کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔دھرنے کے شرکا کے خلاف حکومت کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر، علی محمد خان نے معاہدے پر دستخط کیے جبکہ کالعدم تنظیم کی جانب سے مفتی منیب الرحمان نے بطور ضامن معاہدے کے لیے کردار ادا کیا۔معاہدے کی روح سے سعد رضوی کو ایک ہفتہ میں عدالتی عمل مکمل ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔

آج مفتی منیب الرحمن کا پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے درمیان اتفاق رائے سے معاہدہ طے پا چکا ہے ۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی بحالی پیشگوئی کردی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مفتی منیب نے کالعدم ٹی ایل پی کی بحالی کی پیشگوئی کی۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی کو جلد آئین و قانون کے دائرے میں فعال سیاسی جماعت کے طور پر دیکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا تحریک لبیک دھرنے سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس نمٹنے کے لیے تین افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس میں شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان شامل تھے تحریک لبیک پاکستان شوریٰ کی نمائندگی کرنے والے تین افراد شامل تھے نیز سعد رضوی کی بھی تائید و حمایت شامل تھی۔

مفتی منیب کا کہنا تھا کہ یہ مذکرات تناؤ کے ماحول میں نہیں ہوئے۔ معاہدہ اس لیے کیے گیا کہ جذباتیت پر معقولیت غالب آئی اور فریقین نے تدبر کا مظاہرہ کیا۔ مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ میڈیا کو مثبت انداز میں اسے پیش کرنا چاہیے اور ملک میں امن و امان اور عافیت کی جدوجہد میں میڈیا کو اپنا حصہ شامل کرنا چاہیے۔

حکومتی کمیٹی کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بریفنگ میں کہا کہ جمعے کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ طاقت کے بجائے دانش و ہوش مندی سے معاملے کو حل کرنا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے پریس بریفنگ میں معاہدے سے متعلق صحافیوں کے سوال لینے سے انکار کر دیا۔

مگر حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے درمیان معاہدے کے اہم نکات سامنے آگئے۔

ذرائع کے مطابق معاہدے کے تحت دھرنے کے شرکاء آج رات تک راستہ کھول دیں گے اور ایک سے دو روز میں واپس گھروں کو جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کرے گی اور بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔ مفتی منیب کی کالعدم ٹی ایل پی کی بحالی کی پیشگوئی معاہدے کے اہم نکات کے مطابق حکومت کالعدم تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کردے گی، دہشت گردی سمیت سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق دھرنے کے شرکا کے خلاف حکومت کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔

کالعدم تنظیم کی شوریٰ کے دو ارکان عنایت الحق شاہ اور مفتی عمیر جبکہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بشیر محمود فاروقی بھی پریس کانفرنس میں شریک تھے۔ تحریک لبیک پاکستان کے دس روز سے جاری دھرنے کی وجہ سے ملکی حالات کشیدگی کا شکار تھے۔

حکومتی وزرا نے بارہا مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد علما کو معاملے میں شامل کیا گیا۔ علما نے لاہور میں ملاقات کی جس کے بعد ذرائع کے مطابق سعد رضوی کو خفیہ طور پر لاہور سے اسلام آباد لایا گیا تاکہ مذاکرات کا سلسلہ تیز کیا جا سکے۔

جمعرات کے روز وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا کہ مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور ریاست کی رِٹ قائم کی جائے گی۔ لیکن اسی سلسلے میں جمعے کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا جب اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ، تینوں مسلح افواج کےسربراہان، ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس ، انٹیلی جنس بیورو، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، سینئر سول و عسکری حکام بھی اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ہفتے کے روز مذاکرات کے لیے بننے والی بارہ رکنی کمیٹی میں اُن کا نام بھی شامل ہو گیا۔

مفتی منیب الرحمان نے بتایا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے دونوں جانب سے سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

جوش پر ہوش کا غالب آنا خوش آئند ہے، معاہدہ پاکستان، اسلام اور حب الوطنی کی فتح ہے۔ یہ مذاکرات کسی جبر یا تناؤ کے ماحول میں نہیں ہوئے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کسی ناخوشگوار صورتحال کے پیش آنے سے پہلے معاہدہ ہونا خوش آئند ہے۔‘ حکومت کا تحریک لبیک سے 13 نکاتی معاہدہ حکومت اور کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان کے درمیان 13 نکاتی معاہدہ طے پایا ہے جس کا اعلان وزیرآباد کے مقام سے کیا جائے گا۔

مذاکرات میں شامل سیلانی ویلفئیر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے چیئرمین مولانا بشیر فاروق قادری نے اردو نیوز کے زبیر علی خان کو بتایا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان 13 نکات پر مشتمل طے پا گیا ہے، چھ رکنی وفد سربمہر معاہدے کو لے کر وزیرآباد روانہ ہو گیا جہاں سے اس کا اعلان کیا جائے گا۔

 دھرناختم کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ24 گھنٹوں کے اندر دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔‘ پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ علما نے فہم و فہراست سے ملک کو ایک امتحان سے بچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے مذاکرات کو ترجیح دینی ہے، طاقت سے نہیں بلکہ دانش سے مسئلے کو حل کرنا ہے۔‘