پاکستان: بھٹو جیسا سلوک بھی ہو سکتا ہے- عمران خان

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2023
پاکستان:  بھٹو جیسا سلوک بھی ہو سکتا ہے- عمران خان
پاکستان: بھٹو جیسا سلوک بھی ہو سکتا ہے- عمران خان

 

لاہور:  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سنیچر کو ایک سات رکنی کمیٹی کا اعلان کیا ہے جو حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرے گی۔

اگرچہ اس کمیٹی کے اعلان کے فوری بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد نواز شریف نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ’تخریب کار گروہ سے مذاکرات نہیں ہو سکتے‘ تاہم سنیچر کو ہی عمران خان سے ملنے والے چند ٹی وی اینکرز کے مطابق وہ ابھی بھی پراعتماد ہیں اور ان کے خیال میں اگلے کچھ دنوں بعد حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔
 عمران خان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں میں شامل اینکر پرسن اجمل جامی کے مطابق ’ان کا جذبہ پہلے والا ہی تھا اور دوران گفتگو انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد کوئی معجزہ ہو گا جس سے صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔‘
’تاہم وہ کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
اجمل جامی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عمران خان نے کہا کہ ان کی نااہلی کی صورت میں پارٹی شاہ محمود قریشی سنبھالیں گے جو تحریک انصاف میں ان کے بعد سب سے سینیئر ہیں۔‘
دوران ملاقات عمران خان نے کہا کہ ’بھٹو ٹو‘ معاملہ بھی ہو سکتا ہے یعنی کہ جیسا سلوک ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا تھا ویسا ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کی نااہلی، قید اور پارٹی پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔‘
ان کے خیال میں ’مقتدر حلقوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ انہیں کسی صورت بھی عمران خان نہیں چاہییں اور انہیں مائنس کرنے کا فیصلہ وہ کر چکے ہیں۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ فی الوقت مذاکرات کے لیے کسی سے کوئی رابطہ نہں ہیں اور کوئی ان سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا۔
 اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات ختم کرنے کے لیے رستہ نکالنے کے لیے انہوں نے بہت کوششیں کیں اور صدر عارف علوی اور کرنل ہاشم ڈوگر کے ذریعے موجودہ آرمی چیف کو بھی پیغامات بھجوائے تاہم اب وہ صدر علوی کا فون نہیں اٹھاتے۔‘
’انہوں نے بتایا کہ جب وہ مسئلہ حل کرنے کے لیے جنرل باجوہ سے ملے تو ان ملاقاتوں میں جنرل باجوہ نے انہیں کہا کہ ’ان کی آڈیوز اور ویڈیوز ان کے پاس موجود ہیں۔‘
’انہوں نے کہا کہ وہ سیاست دانوں سے اس لیے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کی اہمیت نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق پی ڈی ایم حکومت پر امریکی حکومت کا بھی کوئی اثر نہیں ہے۔
’اکتوبر میں انتخابات اب نہیں ہوں گے‘
عمران خان نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ ان کے خیال میں اکتوبر میں انتخابات اب نہیں ہوں گے تاہم جب بھی شفاف انتخابات ہوئے وہ جیتیں گے کیونکہ اب لوگوں کو شعور آ گیا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ہر چیز سے آگاہ ہیں۔
اجمل جامی کے مطابق عمران خان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بیش تر پارٹی رہنماؤں کے جانے سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھوتری کی طرف جا رہا ہے اور پی ڈی ایم کا کم ہو رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پکڑ دھکڑ کا خوف وقتی ہے اور جب یہ ایک حد سے بڑھ جائے گی تو لوگوں میں اس کا خوف ختم ہو جائے گا اور وہ اپنے لیے آواز اٹھائیں گے۔ 
 
 کچھ لوگوں کے پارٹی چھوڑنے کا دکھ ہے‘
عمران خان نے کہا کہ انہیں کچھ لوگوں کے پارٹی چھوڑنے کا دکھ ہے اور سب سے زیادہ دکھ شیریں مزاری کے جانے کا ہے۔ فواد چوہدری، اسد عمر، عمران اسماعیل، علی زیدی اور عامر کیانی کے جانے کا بھی دکھ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی کا فیصلہ انفرادی سطح پر ہو گا۔
عمران خان نے بتایا کہ انہیں ملک چھوڑ کر باہر جانے کی پیشکش نہیں ہوئی اور اگر ہوئی بھی تو وہ نہیں جائیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’انہیں نہیں پتہ کہ ان کے بھانجے نے کور کمانڈر ہاؤس میں ان کی فوجی وردی کی پتلون لہرائی تھی اور اگر ایسا کیا تھا تو انتہائی غلط کیا تھا اور انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ اسلام آباد میں دوران حراست ان کی کسی اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی تھی