اسلام آباد: کل دنیا نے ایڈز مخالف دن منایا جس کا مقصد دنیا میں اس موذی بیماری کی روک تھام پر زور دینا تھا- اس موذی مرض کی روک تھام کے لیے دنیا میں بیداری پیدا کی گئی -مگر سب سے زیادہ تشویش پاکستان میں ابھر کر سامنے آئی ہے -امسال بھی پاکستان میں اس بیماری سے متعلق آگاہی کی غرض سے سیمینار، واکس اور دوسری سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔
موزی مرض سے متعلق عوامی آگاہی کے لیے اقدامات اٹھانا صحیح حکمت عملی ہے، تاہم ماہرین اور حکومتی ادارے پاکستان میں ایڈز کے بڑھتے کیسسز کو لے کر تشویش میں مبتلا ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اپنی ٹویٹ میں محکمہ صحت سے ایڈز کے خاتمے کے لیے کوششوں کی اپیل کی ہے۔ وزیراعظم نے لکھا: 'بچوں اور نوعمروں میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔میں وزارت صحت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس لعنت سے لڑنے کے لیے جانچ، روک تھام اور علاج کے بارے میں بیداری پر توجہ مرکوز کریں۔ آج ایڈز کے عالمی دن پر، آئیے ہم سب ایچ آئی وی سے جڑے بدنما داغ کو ختم کرنے کا عہد کریں۔
The increasing incidence of HIV & Aids among the children & adolescents is deeply worrying. I urge Ministry of Health to focus on awareness about testing, prevention & treatment to fight scourge. On World Aids Day today, let us all vow to end the stigma attached with HIV.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) December 1, 2022
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان بھارت اور نیپال سے چند قدم پیچھے رہتے ہوئے ایڈز کی وبا کے معاملے میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
ادارے کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود گذشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں ایڈز انفیکشن کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور درحقیقت ملک 'کم سے کم پھیلاؤ' کے لیول سے 'مرتکز وبا' کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو لاکھ 10 ہزار افراد ایڈز کی وجہ بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) کا شکار ہیں، جن میں سے تقریبا 54 ہزار ملک میں قائم 51 ایڈز مراکز میں رجسٹرڈ ہیں۔
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ صوبے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صوبے کے دو بڑے شہروں یعنی بنوں اور پشاور میں ایچ آئی وی کی منتقلی کے زیادہ کیسز مرد کے مرد سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں، جب کہ انجیکشن استعمال کرنے والوں اور ٹرانس جینڈر/سیکس ورکرز میں بھی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی کافی تعداد موجود ہے۔