فوج کی واپسی کے فیصلے پر شرمندگی نہیں: بائیڈن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
امریکی صدر جوزف بائیڈن
امریکی صدر جوزف بائیڈن

 

 

واشنگٹن :امریکی صدر جوزف بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ درست تھا، فیصلے پر شرمندگی نہیں، جانتا ہوں اس فیصلے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنوں گا۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو تبدیل کرنا ہمارا مشن نہیں تھا، ہمارا مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور اسامہ کو پکڑنا تھا، ہم اس میں کامیاب رہے۔ بائیڈن نے کہا کہ امریکا کے چار صدور کے ادوار سے امریکا افغان جنگ میں شریک رہا ہے، میں پانچویں امریکی صدر تک یہ جنگ پہنچنے نہیں دوں گا، یہ امریکی عوام، امریکی افواج اور امریکا کے لئے درست فیصلہ ہے۔

یہ امریکا کی طویل جنگ رہی اور کتنی امریکی جانیں اس جنگ میں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جو ہوا وہ 4 برس پہلے یا پندرہ برس بعد بھی ہو سکتا تھا، اس وقت ہم افغانستان سے اپنے اور اتحادیوں کو بحفاظت نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو کہہ دیا تھا کہ اگر انخلا کے مشن میں رکاوٹ ڈالی تو ہمارا ردعمل فوری ہوگا، امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امریکا اپنا مشن ختم کردے گا۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف فوری ایکشن لیں گے۔ چین اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں مزید ڈالرز خرچ کرتا رہے۔

امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان پر جتنی تیزی سے قبضہ ہوا اس کی امید نہ تھی، عبدﷲ عبدﷲ اور اشرف غنی سے ملاقات میں انخلا کے بعد کی صورتحال پر بات ہوئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ افغان حکومت مقابلہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ جو لڑائی افغان فوج نہیں لڑنا چاہتی وہ امریکی فوج کیوں لڑے؟ افغان فورسز کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے تھے۔ امریکا کے صدر کا کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے امریکا نے افغان ملٹری کی ہر طرح سے معاونت کی، افغان فوج منہدم ہو گئی، انہیں ہر قسم کا تعاون دلایا گیا، افغان فورسز پر اربوں ڈالر لگائے گئے، بہترین سامان مہیا کیا گیا، جو ہم نہ دے سکے وہ لڑنے کی جرات تھی۔

وائٹ ہاؤس میں ایک خطاب میں امریکی صدر نے افغانستان میں جاری صورت حال پر اپنی خاموشی توڑی اور کہا کہ افغانستان پر قبضے کے ذمہ دار افغان رہنما ہیں جو ملک سے فرار ہو گئے اور افغان فوج ہے جو امریکی تربیت یافتہ ہونے کے باوجود عسکریت پسند گروپ سے لڑنے کو تیار نہیں۔

بائیڈن نے خاص طور پر دو اعلیٰ افغان رہنماؤں صدر اشرف غنی اور اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیے کے لیے ان کا مشورہ ماننے سے ’صاف انکار‘ کر دیا۔

 چار بڑی وجوہات امریکی صدرکے بقول: ’ہم نے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا ہر موقع دیا۔ ہم انہیں اس مستقبل کی خاطر لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکے۔ امریکی فوجی ایسی جنگ میں لڑ اور مر نہیں سکتے جو افغان فورسز خود لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ ’20 سال میں میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا کوئی بھی مناسب وقت نہیں تھا۔‘