مِنا (نائیجیریا): نائیجیریا میں ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماعی اغوا کے واقعات میں سے ایک کے بعد رہا کیے گئے 130 اسکولی بچوں اور اساتذہ کو پیر کے روز پہلی مرتبہ عوام کے سامنے دیکھا گیا۔ سرکاری تقریب میں شریک بعض بچے غذائی قلت کا شکار یا شدید صدمے کی حالت میں نظر آئے۔
پولیس کے مطابق انہیں اتوار کے روز رہا کرایا گیا تھا۔ ایک ماہ قبل مسلح افراد نے نائیجر ریاست کے پاپیری علاقے میں واقع ایک کیتھولک اسکول پر علی الصبح حملہ کر کے ان بچوں اور اساتذہ کو اغوا کر لیا تھا۔ حکام نے بتایا کہ بچوں کو کرسمس سے قبل ان کے اہلِ خانہ سے ملانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل حکام نے کہا تھا کہ 303 اسکولی بچوں اور 12 اساتذہ کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے 50 بچے چند ہی گھنٹوں میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تاہم پیر کے روز نائیجر ریاست کے گورنر محمد باگو نے اشارہ دیا کہ مجموعی طور پر 230 افراد کو اغوا کیا گیا تھا اور اب سب کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اسکولوں سے اغوا کے واقعات افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائیجیریا میں عدم تحفظ کی ایک نمایاں علامت بن چکے ہیں۔
حکام نے یہ نہیں بتایا کہ آیا کوئی تاوان ادا کیا گیا یا نہیں۔ اب تک کسی گروہ نے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم مقامی لوگوں نے شمالی نائیجیریا میں سرگرم مسلح گروہوں پر الزام عائد کیا ہے جو تاوان کے لیے اسکولوں اور مسافروں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اسکول کے مطابق اغوا کیے گئے زیادہ تر بچوں کی عمریں 10 سے 17 سال کے درمیان ہیں۔ پہلے رہا کیے گئے ایک بچے نے ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘ کو بتایا کہ حملے کے دوران بندوق برداروں نے انہیں گولی مارنے کی دھمکی دی تھی۔ نائیجیریا کے ’’سینٹر فار کاؤنٹر ٹیررازم‘‘ کے قومی رابطہ کار میجر جنرل ادامو گربا لاکا نے پیر کے پروگرام میں کہا کہ حکومت زیادہ خطرے والے علاقوں میں سکیورٹی بڑھانے کے لیے کمیونٹی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔