بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے سے متعلق نئے انکشافات

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-06-2021
بکنگھم پیلس کی متنازع شقوں پر مبنی پالیسی آج بھی بدستور موجود
بکنگھم پیلس کی متنازع شقوں پر مبنی پالیسی آج بھی بدستور موجود

 



 

لندن

بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے پر ایک بار پھر سے بحث شروع ہوگئی ہے۔ حال ہی میں چند نئی دستاویزات سامنے آئی ہیں جن سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ 1960ء تک رنگ ونسل کی بنیاد پر گندمی یا کالے رنگ کے ملکی یا غیر ملکی افراد کی انتظامی امور کے لیے خدمات حاصل کرنے پر پابندی عائد تھی۔

برطانوی جریدے ’دی گارڈین‘ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق بکنگھم پیلس کی متنازع شقوں پر مبنی یہ پالیسی آج بھی بدستور موجود ہے جبکہ ملکہ اور ان کے گھر والوں کو ان قوانین سے استثنیٰ ہے جو نسل اور جنس کی تفریق کو روکتے ہیں۔

ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح 1968ء میں ملکہ کے چیف فنانشل منیجر نے سرکاری ملازمین کو بتایا کہ ’شاہی محل میں انتظامی عہدوں پر کام کرنے کے لیے بکنگھم پیلس کی نسل پرستی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے گندمی یا کالے رنگ کے ملکی یا غیر ملکی افراد کی تقرری کرنے کا رواج نہیں تھا۔‘

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت 1990ء کی دہائی میں ختم ہوگئی تھی کیونکہ پھر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ملازمت دی جانے لگی تھی۔ یہ انکشافات شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے بکنگھم پیلس پر نسل پرستی کے الزامات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔

واضح رہے کہ میگھن مارکل نے میزبان اوپرا وِنفری کے ساتھ اپنے تہلکہ خیز انٹرویو میں کہا تھا کہ شاہی محل میں ان کے بیٹے آرچی کی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ باتیں اس کے رنگ کے بارے میں ہوتی تھیں۔ (ایجنسی ان پٹ)