اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سزا موت، نیا عراقی قانون منظور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2022
اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سزا موت، نیا عراقی قانون منظور
اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سزا موت، نیا عراقی قانون منظور

 

 

عراق؛ لائیو عنوانات حالات حاضرہ اشتہار اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سزا موت، نیا عراقی قانون منظور 10گھنٹ in عراقی پارلیمان نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات

رکھنے پر موت یا عمر قید کی سزا کا نیا قانون منظور کر لیا ہے۔ اس پر اپنے رد عمل میں امریکہ نے بغداد میں اس اسرائیل مخالف قانون سازی پر گہری مایوسی ظاہر کی ہے۔

عراقی پارلیمان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس قانون کی منظوری 'عوامی امنگوں کی حقیقی آئینہ دار‘ ہے۔ عراق کی 329 رکنی پارلیمان میں 275 ارکان نے اس مسودہ قانون کی حمایت کی۔

بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے اس قانون سازی کے بعد عراقی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس 'عظیم کامیابی‘ پر جشن منائیں۔ ان کے اس بیان کے بعد سینکڑوں شہریوں نے وسطی بغداد میں جمع ہوکر اسرائیل مخالف نعرے بازی کی۔ الصدر کی جماعت نے گزشتہ برس بغداد کی پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس قانون کا نفاذ کیسے ممکن ہو گا؟ عراق نے سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے لے کر آج تک اسے ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا

اسی لیے دونوں ممالک کے مابین کبھی کوئی سفارتی تعلقات بھی نہیں رہے۔ نئے قانون کا اطلاق اسرائیل کے ساتھ کسی بھی عراقی شہری یا ادارے کی طرف سے تجارتی تعلقات رکھنے کی صورت میں بھی ہو گا

اس قانون سازی سے ان ملکی کمپنیوں کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جو عراق میں رہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط کی حامل پائی گئیں۔

امریکی رد عمل

امریکہ نے اپنے رد عمل میں اس قانون سازی پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا، ''اس قانون سازی کے نتیجے میں نا صرف آزادی اظہار کے متاثر ہونے بلکہ سامیت مخالف فضا کے فروغ پانے کے بھی خدشات بہت واضح ہیں جبکہ یہ عراق کے ہمسایہ ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور خطے کے لوگوں کے لیے نئے مواقع پیدا کرنےکی کوششوں کے بھی برعکس ہے۔‘‘

رواں سال کے آغاز پر ایران نے نیم خود مختار عراقی کردستان کے شہر اربیل پر ایک درجن کے قریب بیلسٹک میزائل داغے تھے اور تب تہران نے کہا تھا کہ ایسا وہاں قائم اسرائیلی خفیہ اداروں کے ایک مبینہ مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے عراقی پارلیمان کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی الزامات اس وجہ سے غلط ثابت ہوئے کہ چھان بین کے دوران اس بات کے شواہد نہیں ملے تھے کہ اربیل میں اسرائیلی خفیہ اداروں کا کوئی مبینہ مرکز موجود تھا۔۔