نئی کووڈ قسم 'اومی کرون' : دنیا کے لیے نئے خطرے کی گھنٹی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
نئی کووڈ قسم  'اومی کرون' : دنیا کے لیے نئے خطرے کی گھنٹی
نئی کووڈ قسم 'اومی کرون' : دنیا کے لیے نئے خطرے کی گھنٹی

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

کورونا وبا کے تقریباً دو سال بعد اس وائرس کی نئی قسم اومی کرون پر قابو کے لیے جمعے کو پوری دنیا میں نئی دوڑ کا آغاز ہو گیا۔اومی کرون وائرس کو پچھلی اقسام سے زیادہ مہلک تصور کیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نئے وائرس کو’اومی کرون‘ کا نام دیا ہے اور اسے تشویش کے اعتبار سے انتہائی تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی اس کیٹگری میں رکھا ہے جس میں ڈیلٹا ویرینٹ شامل ہے۔ ڈیلٹا ویرینٹ کے یورپ اور امریکہ کے کچھ حصوں میں بڑی تعداد میں مریض موجود ہیں اور اموات جاری ہیں۔

جنوبی افریقہ میں وائرس کی نئی دریافت ہونے کے بعد ہندوستان، امریکہ، کینیڈا اور روس سمیت متعدد ملک متاثرہ علاقے سے لوگوں کی آمد یا وہاں کے سفر پر پابندی لگانے میں یورپی یونین کے ساتھ مل گئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اومی کرون کے حقیقی خطرات ابھی تک نہیں سمجھے گئے لیکن ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں اس کا دوبارہ مرض میں مبتلا کر دینے کا خطرہ زیادہ ہے۔


مزید پڑھیں: ۔ موڈرنا: اومی کرون کا بوسٹربنائے گی


اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں وائرس کی اس نئی قسم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کم مؤثر ہیں۔

نیا نام  ملا ’’اومی کرون‘۔

جنوبی افریقا میں کورونا وائرس کے نیا ویرینٹ اومی کرون کا نام دیا گیا ہے جو دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے جب کہ سائنس دانوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم B.1.1.529 ویکسین کے خلاف مزاحمت بھی کرسکتی ہے۔

 اس نئے وائرس کی خبر مارکیٹ میں آتے ہی دنیا بھر میں اسٹاکس پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور یورپ اور ایشیا کی منڈیوں میں مندی کا رجحان دیکھا گیا جبکہ تیل کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔

اسرائیلی وزارت صحت نے کہا کہ ملاوی سے واپس آنے والے مسافر میں نئے کورونا ویرینٹ کا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب کہ دو دیگر مشتبہ مسافروں کو بھی آئسولیشن میں رکھا گیا ہے۔ یہ تینوں پہلے سے ویکسین شدہ تھے۔

ادھر عالمی ادارہ صحت کے ترجمان کرسچن لنڈمیئر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سفری پابندیاں بہت دیکھ بھال کر اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر عائد کرنی چاہیئے کیوں کہ ابھی اس ویرینٹ کے پھیلاؤ اور خطرے سے متعلق درست اعداد و شمار سامنے آنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ 

بی-1.1.529 نامی اس نئی کووڈ قسم کے صرف 10 کیسز کی تصدیق 3 ممالک میں جینومک سیکونسنگ کے ذریعے ہوئی مگر اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ محققین کو خدشہ ہے کہ یہ قسم مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔


مزید پڑھیں:۔کورونا کی نئی قسم کے لیے کیا نئی ویکسین کی ضرورت ہوگی؟


اس وائرس کی منتقلی کی شرح بہت زیادہ بتائی جا رہی ہے اور اس نئی قسم کے بارے میں خبر عام ہوتے ہی یورپ اور ایشیا کی منڈیوں میں اسٹاکس مندی کا شکار ہیں۔

جرمن وزیر صحت جینس اسپاہن نے یورپی یونین کے27ممالک میں کیسز میں اضافے کے پیش نظر اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وائرس کی ایک نئی قسم ہے جو بہت زیادہ مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔وائرس کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ وائرس موجودہ اقسام سے کہیں زیادہ خطرناک اور ویکسینیشن مہم کی افادیت کو بھی زائل کر سکتا ہے۔

برطانوی سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے اراکین اسمبلی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ علامات ظاہر ہوئی ہیں کہ یہ وائرس ڈیلٹا وائرس سے زیادہ خطرناک اور اس سے زیادہ تیزی سے منتقل ہو رہا ہے اور موجودہ ویکسین اس کے خلاف زیادہ مؤثر نہیں ہیں لہٰذا ہمیں ہنگامی بنیادوں پر بہت تیزی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

اب تک کتنے کیسز ملے؟

اس قسم کے پہلے کیس جنوبی افریقہ میں پائے گئے۔ وہاں اب تک 77 لوگ اس قسم سے متاثر ہو چکے ہیں۔ بوٹسوانا میں بھی 4 افراد اس قسم سے متاثر پائے گئے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بوٹسوانا میں مکمل ویکسین شدہ افراد بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ہانگ کانگ میں بھی اس نئے قسم کے 2 کیسز پائے گئے ہیں۔ فی الحال دونوں مریضوں کو الگ تھلگ رکھا گیا ہے اور ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔

اسرائیل میں بھی اس قسم سے متاثرہ ایک کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔ متاثرہ شخص جنوبی افریقہ کے ملک ملاوی سے واپس آیا ہے۔

کیا ویکسین اس پر اثر نہیں کرے گی؟

خیال کیا جاتا ہے کہ ۔ چونکہ ویکسین چین میں پائے جانے والے وائرس کے مطابق بنائی گئی ہے لیکن یہ تناؤ اس اصل وائرس سے مختلف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ویکسین اس قسم کے خلاف موثر نہ ہو۔ یہاں تک کہ اگر یہ مؤثر ہے، تو اس کی کارکردگی کو کم کیا جا سکتا ہے. تاہم اس بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہیں۔