کٹھمنڈو: نیپال میں پارلیمانی انتخابات اگلے سال 5 مارچ کو ہوں گے۔ اس بات کا اعلان صدر رام چندر پاؤڈیل کے دفتر کی جانب سے کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد کیا گیا، جن کے نتیجے میں کے۔پی۔شرما اولی کو وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور سشیلہ کارکی کو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔
صدر پاؤڈیل نے جمعہ کو نومنتخب وزیر اعظم کی سفارش پر ایوان نمائندگان کو تحلیل کرتے ہوئے کہا کہ اگلا پارلیمانی انتخاب 5 مارچ کو منعقد ہوگا۔ سابق چیف جسٹس کارکی (73) نے جمعہ کی رات ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جس کے ساتھ ہی سیاسی غیر یقینی صورتحال ختم ہو گئی۔ یہ صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب اولی نے سوشل میڈیا پر پابندی اور مبینہ بدعنوانی کے خلاف حکومت مخالف مظاہروں کے بیچ اچانک استعفیٰ دے دیا۔
کارکی اتوار کو ایک مختصر کابینہ تشکیل دیں گی۔ ان کے پاس داخلہ، خارجہ اور دفاع سمیت تقریباً دو درجن وزارتیں ہوں گی۔ صدر کے دفتر کے ذرائع کے مطابق، وزیر اعظم کارکی عہدہ سنبھالنے کے بعد اتوار کو چند وزرا کو شامل کر کے کابینہ تشکیل دیں گی۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ احتجاج کے دوران سنگھ دربار سیکریٹریٹ میں واقع وزیر اعظم کے دفتر کو آگ لگا دی گئی تھی، اس لیے اب سنگھ دربار کمپلیکس میں وزارت داخلہ کی نئی عمارت کو وزیر اعظم کے دفتر کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ عمارت کے اطراف راکھ ہٹانے اور صفائی کا کام جاری ہے۔
ادھر وزیر اعظم کارکی نے ہفتے کے روز کٹھمنڈو کے بنیشور علاقے میں سول اسپتال کا دورہ کیا، جہاں احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے درجنوں افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔ نیپال کی بڑی سیاسی جماعتوں اور وکلا کی اعلیٰ تنظیم نے صدر کے پارلیمان تحلیل کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ’’غیر آئینی‘‘، ’’من مانا‘‘ اور جمہوریت کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔
تحلیل شدہ ایوان نمائندگان کے چیف وہپس نے پارلیمان کی تحلیل کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ نیپال پولیس کے مطابق جمعہ کو بتایا گیا کہ مظاہروں کے دوران کم از کم 51 افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک ہندوستانی شہری بھی شامل ہے۔