افغانستان : طالبان کی'حکومت'میں خواتین نہ جوان

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-09-2021
سربراہ ،ملا حسن احمد اخوند (دائیں) جبکہ ملا عبدالغنی برادر(بائیں) نائب سربراہ
سربراہ ،ملا حسن احمد اخوند (دائیں) جبکہ ملا عبدالغنی برادر(بائیں) نائب سربراہ

 

 

کابل: کل طالبان نے طویل انتظار کے بعد حکومت سازی کا اعلان کیا مگر اس کے ساتھ ’عبوری‘ کا اضافہ تھا۔ 

طالبان کی عبوری حکومت کے عارضی  یا قائم مقام سربراہ یعنی وزیر اعظم  ملا حسن احمد اخوند ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام  نائب وزرائے اعظم ہوں گے۔

طالبان ترجمان نے مزید کہاکہ طالبان کے بانی امیر ملامحمد عمر کے صاحبزادے اورہمارے ملٹری آپریشن کے سربراہ ملا محمد یعقوب عبوری وزیردفاع مقرر کیے گئے ہیں۔

قائم مقام یا عارضی حکومت کے ساتھ ایک کابینہ کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ جس میں طالبان کے سوا کوئی نہیں ۔اگر ہے بھی تو برائے نام ۔ 

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت میں نہ تو کوئی نوجوان چہرہ ہے اور نہ ہی کوئی خاتون ۔حالانکہ اس سے قبل طالبان نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ حکومت میں خواتین کو بھی حصہ داری ملے گی۔ لیکن فی الحال تو ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس کابینہ میں 33 میں سے 30وزرا کا تعلق پشتون برادری سے ہے۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پر طالبان کا ہی مکمل کنٹرول ہوگا اگر کسی کو شامل کیا جائے گا تو صرف نمائندگی کے طور پر محدود اختیارات کے ساتھ۔۔

کابینہ کے 33 وزراء کی حکومت میں 30 وزیر پشتون۔

طالبان نے کل 33 وزراء کا اعلان کیا ہے جن میں 30 پشتون ، 2 تاجک اور ایک ازبک نژاد ہیں۔ ایک ہی خاندان (حقانی نیٹ ورک) کے 4 وزیر ہیں۔ افغانستان کے نوجوان ، خواتین ، سیاستدان اس حکومت میں شامل نہیں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیتی برادری ہزارہ گروپ سے کوئی وزیر نہیں لیا گیا۔

سینئر رہنماؤں کو عہدے دے کر آسان بنایا گیا

طالبان کے وزارتی عہدوں کی تقسیم سے یہ واضح ہے کہ طالبان کے مختلف گروہوں کے اندرونی اختلافات کو کم کرنے کے لیے عہدوں کو آپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اپنے گروپ میں بڑھتی ہوئی عدم اطمینان کو کم کرنے کے لیے سینئر طالبان رہنماؤں کو وزیر بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں پہچان حاصل کرنا مشکل ہے۔ بیشتر وزراء کے پاس وزارت کو سنبھالنے کے لیے ضروری قابلیت یا تجربہ نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل سے انتظامیہ میں مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ یہ طالبان حکومت آسانی سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں ہو گی۔

 تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کا چیلنج۔

افغانستان اس وقت انتہائی مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے۔ حکومت کو انتظامیہ کے لیے مالی مدد کی بھی ضرورت ہوگی۔ پہچان کے بغیر ، معیشت کو شاید ہی کوئی ٹھوس مدد ملے۔

#085078

ملا محمد حسن اخوند کون ہیں؟

افغان طالبان کی جانب سے نامزد عبوری سربراہ ملا محمد حسن اخوند طالبان کی طاقتور رہبری شوریٰ کے بھی سربراہ ہیں۔ ان کا تعلق قندھار سے ہے جہاں طالبان کی بنیاد پڑی تھی۔ ملا محمد حسن طالبان کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 20 سال تک طالبان کی رہبری شوریٰ کے سربراہ رہے ہیں۔ وہ ایک مذہبی سکالر ہیں۔ نئے سربراہ نے طالبان کے موجودہ امیر ملا ہبت اللہ کے ساتھ 20 سال تک کام کیا ہے۔ وہ پچھلی طالبان حکومت میں وزیرخارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ملا محمد حسن اگست 1999 میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں انہوں نے اُس وقت کے پاکستانی  وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔

ملا عبدالغنی برادر

 ملا عبدالغنی برادر کا شمار طالبان تحریک کے سرکردہ رہنماؤں اور ملا عمر کے انتہائی اہم اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ملا برادر طالبان شوریٰ کے اہم رکن اور ملا محمد عمر کے نائب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر سنہ 1968 میں پیدا ہوئے۔ ابھی ان کی طالب علمی کا زمانہ تھا کہ اس دوران افغانستان میں سابق سوویت یونین کی افواج کے داخلے کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ ملا عبدالغنی برادر اپنے اہل خانہ سمیت پاکستان ہجرت کر کے کوئٹہ کے قریب واقع کچلاک میں رہائش پذیر ہو گئے۔

ملا برادر سنہ 2010 میں پاکستان میں اپنی گرفتاری سے قبل نہ صرف طالبان کی قیادت میں دوسرے نمبر پر تھے بلکہ طالبان کی پہلی حکومت اور پھر امریکہ کے خلاف جنگی حکمت عملی کے ماسٹر مائنڈ بھی سمجھے جاتے ہیں۔اپنی رہائی کے بعد انھوں نے اپنی مذاکراتی اور سفارت کاری کی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے طالبان کے بنیادی مطالبے کو منوانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی کی بدولت طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 

سراج الدین حقانی وزیر داخلہ

طالبان کے مشہور حقانی نیٹ ورک کے موجودہ سربراہ سراج حقانی کو وزارت داخلہ کا اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ سراج الدین حقانی طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کے دو نائبین میں سے ایک ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پر افغان جنگ کے دوران امریکہ کی جانب سے پابندیاں لگائی گئی تھیں اور اب بھی سراج الدین حقانی کی گرفتاری کے لیے مدد دینے پر امریکہ کی جانب سے پچاس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔ ایف بی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق حقانی 2008 میں ہونے والے کابل ہوٹل حملے کے لیے مطلوب ہیں جس میں امریکی شہری سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حقانی نیٹ پر امریکہ کی جانب سے القاعدہ کی مدد کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اسے جلال الدین حقانی نے اسی کی دہائی میں سابق سودیت یونین کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے قائم کیا تھا۔ 1996 میں طالبان حکومت کے قیام کے باجود حقانی نیٹ ورک نے اپنی شناخت برقرار رکھی تھی۔ جلال الدین حقانی 2018 میں انتقال کر گئے تھے مگر ان کی وفات سے قبل ہی حقانی نیٹ ورک کی سربراہی سراج الدین حقانی کو سپرد کر دی گئی تھی۔

سراج حقانی کے چچا خلیل حقانی بھی نئی کابینہ میں مہاجرین کے وزیر مقرر کیے گئے ہیں۔ سراج حقانی کے بھائی انس حقانی بھی سینیئر طالبان رہنما ہیں۔

وزیر دفاع ملا محمد یعقوب طالبان کے بانی امیر ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کو بھی وزیر دفاع کا اہم ترین عہدہ دیا گیا ہے۔ ملا یعقوب طالبان کے موجودہ امیر ملا ہبت اللہ کے شاگرد رہے ہیں۔

طالبان ترجمان نے مزید کہاکہ طالبان کے بانی امیر ملامحمد عمر کے صاحبزادے اورہمارے ملٹری آپریشن کے سربراہ ملا محمد یعقوب عبوری وزیردفاع مقرر کیے گئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھاکہ افغان حکومت میں سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ کی ذمے داری سونپی گئی ہے جبکہ وزارت خارجہ مولوی امیر خان متقی کے سپرد ہے۔

 ملا ہدایت اللہ بدری وزیر خزانہ

 شیخ اللہ منیر وزیر تعلیم ہوں گے ۔

 خلیل الرحمان حقانی وزیر برائے مہاجرین ہوں گے۔

 قاری فصیح الدین آرمی چیف ہوں گے۔

محمد یعقوب مجاہد کو عبوری وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔جو کہ  سابق طالبان سربراہ ملا عمر کے بیٹے ہیں۔

سراج الدین حقانی وزیر داخلہ ہوں گےجو کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ  ہیں۔

 ملا خیر اللہ وزیر اطلاعات بنے ۔

مولوی محمد عبدالحکیم افغان عدلیہ کے وزیر ہوں گے۔

ہدایت اللہ بدری کو وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

ملک کا نام افغانستان اسلامی امارات ہو گا

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ پنج شیر میں کوئی جنگ نہیں ہے اور ملک کا ہر حصہ ہمارے وجود کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مرضی صرف افغانیوں کی چلے گی اور آج کے بعد کوئی بھی افغانستان میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا۔ذبیح اللہ نے مزید کہا کہ بیشتر ممالک کے ساتھ روابط ہوئے ہیں اور متعدد ممالک کے محکمہ خارجہ کے نمائندگان نے افغانستان کے دورے کیے ہیں۔دوران پریس کانفرنس جب سوال کیا کہ افغانستان کا اب پورا نام کیا ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ ملک کا نام افغانستان اسلامی امارت ہو گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ فی الحال شوریٰ اس حکومت کے امور دیکھے گی اور اس کے بارے میں بعد میں دیکھا جائے گا کہ لوگوں کی اس حکومت میں شرکت و شمولیت کیسے ہوگی۔

مظاہروں کے پیچھے بیرون ملک مقیم لوگوں کا ہاتھ ہے

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے عوام سے مظاہروں سے گریز اور اس میں شرکت سے احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک بحرانی حالات سے گزر رہا ہے لہٰذا لوگ احتیاط اور مظاہروں سے گریز کریں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین کے پیچھے بیرون ملک مقیم لوگوں کا ہاتھ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں بحرانی صورتحال برقرار رہے۔

 ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ہماری مدد کررہا ہے

جب ذبیح اللہ مجاہد سے افغانستان کے امور میں پاکستانی مداخلت کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پروپیگنڈا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس بات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ہماری مدد کر رہا ہے اور ہم لوگوں نے 20 سال اس ملک کی آزادی کے لیے جنگ کی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ سب طبقوں کو موجودہ کابینہ میں نمائندگی دی گئی ہے، کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اُن کے کام کو دیکھتے ہوئے کی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ہم، ہمارے ساتھ جنگ کرنے والے امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔انہوں نے ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ باہر کے لوگوں کا اس بات سے لینا دینا نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں نظام کیسا ہوگا اور کسی کو ملک کے داخلی اُمور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے 15 اگست کو افغانستان میں اقتدار سنبھال لیا تھا اور سابق صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو کر متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے جبکہ ان کے نائب امراللہ صالح نے وادی پنج شیر میں پناہ لی تھی۔

 ملک میں اسلامی قوانین ار شریعت کا نفاذ کریں گے، محمد حسن اخوند

 ادھر قائم مقام وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے ایک علیحدہ بیان میں غیرملکی افواج کے انخلا، قبضے کے خاتمے اور ملک کی مکمل آزادی پر عوام کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک پرعزم کابینہ کا اعلان کیا جا چکا ہے جو جلد از جلد اپن کام شروع کردے گی اور ملک کی قیادت اسلامی قوانین اور شریعت کے نفاذ، ملک کے مفادات کے تحفظ، افغانستان کی سرحدوں کی حفاظت پائیدار امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے سخت محنت کرے گی۔

محمد حسن اخوند نے کہا کہ مل میں زندگی اسلامی قوانین کے مطابق گزاری جائے گی، ہم ایک پرامن، خوشحال اور خودمختار افغانستان چاہتے ہیں جس کے لیے ہم ایسے تمام عوامل کا خاتمہ کریں گے جو جنگ کے خاتمے کا سبب بنیں اور ہمارے مل کے عوام مکمل سیکیورٹی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی عبوری افغان حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اور مؤثر اقدامات کرے گی جبکہ اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقلیتوں اور محروم طبقات کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا۔

 ان کا کہنا تھا کہ تمام افغان بغیر کسی امتیاز کے اپنے ملک میں عزت اور امن کے ساتھ رہنے کا حق حاصل کریں گے اور ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ جان و مال کی حفاظت بھی کی جائے گی