واشنگٹن: حال ہی میں نیو یارک ٹائمز کی ایک تفصیلی رپورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان پیدا ہونے والی سفارتی کشیدگی کو منظر عام پر لایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 17 جون کو دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ایک فون کال نہ صرف غیر معمولی نوعیت کی تھی بلکہ اس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں واضح سرد مہری بھی پیدا کی۔
فون کال کے دوران صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی ختم کرانے کے "کارنامے" کی بنیاد پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کریں۔ ٹرمپ کا دعویٰ تھا کہ حالیہ جنگ بندی انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور وہ اس سلسلے میں کھلے عام مہم بھی چلا رہے ہیں۔
تاہم، وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کے اس مؤقف کو سختی سے مسترد کر دیا اور واضح کر دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کسی تیسرے فریق کے بجائے براہِ راست مذاکرات کا نتیجہ ہے، جس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یہ ردعمل صدر ٹرمپ کے لیے ایک غیر متوقع جھٹکا ثابت ہوا، اور یہی وہ لمحہ تھا جس نے دونوں رہنماؤں کے درمیان بڑھتی قربت کو شدید متاثر کیا۔
اس گفتگو کے چند ہی ہفتوں بعد امریکہ نے ہندوستان پر نہ صرف 25 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کیا بلکہ روس سے تیل کی خریداری پر مزید 25 فیصد کا جرمانہ بھی لگا دیا، جس سے مجموعی محصول 50 فیصد تک جا پہنچا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ سخت فیصلے اسی سفارتی تلخی کا ردعمل تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ٹرمپ نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ثالثی کا دعویٰ کیا ہو۔
ماضی میں بھی انہوں نے اس نوعیت کے بیانات دیے، جنہیں ہندوستان نے ہمیشہ یکسر مسترد کیا ہے۔ ہندوستان کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ کشمیر اور دیگر دوطرفہ مسائل میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم مودی نے نہ صرف ٹرمپ کی نوبیل نامزدگی کی درخواست رد کی بلکہ ان کی جانب سے کی گئی جی-7 اجلاس کے بعد واشنگٹن آمد کی دعوت کو بھی مسترد کر دیا۔ ہندوستانی حکام کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ اس موقع پر وزیر اعظم مودی اور پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے ہندوستان کی سفارتی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے۔
اس کشیدگی کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ جب امریکہ اور ہندوستان کے درمیان جزوی تجارتی معاہدے پر بات چیت کی کوشش کی گئی تو ہندوستانی حکام نے مودی کو ٹرمپ سے رابطے سے روک دیا۔
ہندوستانی حکام کو یہ خدشہ تھا کہ ٹرمپ کسی بھی گفتگو کی تفصیلات اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر من مانے انداز میں شیئر کر سکتے ہیں، جس سے ہندوستان کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ یہ تمام صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بین الاقوامی سفارت کاری میں ذاتی انا، نکتہ چینی اور غلط فہمی کس طرح دو ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔
مودی حکومت نے جہاں اپنے قومی مفادات اور خودمختاری کا دفاع کیا، وہیں ٹرمپ انتظامیہ کی ذاتی شہرت اور سیاسی عزائم نے سفارتی تعلقات کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا۔ حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
یہ تنازع صرف ایک فون کال تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن اور قیادت کے انداز کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔ مستقبل میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کس سمت جائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔