عدلیہ و فوج کی تضحیک سنگین جرم ہے: پاکستان سپریم کورٹ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
عدلیہ و فوج کی تضحیک سنگین جرم ہے: سپریم کورٹ
عدلیہ و فوج کی تضحیک سنگین جرم ہے: سپریم کورٹ

 

 

اسلام آباد :  سپریم کورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ و فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔ نامہ نگار مونا خان کے مطابق منگل کو ہونے والی سماعت میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں۔ ’آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔ بابر اعوان نے جواباً کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے۔ اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ میری نظر میں آرٹیکل 63(1)جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔ آرٹیکل 63(1)جی عدلیہ فوج کی تضحیک اور آئیڈیا لوجی آف پاکستان سے متعلق ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منیب، جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا۔

مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہو گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نا اہل ہو گا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہو جائے گی۔ آرٹیکل بن 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے۔

جب تک نا اہلی کا ڈکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی۔ یوٹیلیٹی بلز کی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے پر کوئی ڈی سیٹ ہو اور 15 دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے۔ ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہوکر کوئی وزیر بھی بن جائے۔ ایسا ہو جانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق ہے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آپ قانونی اصلاحات کریں۔توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ ’ہم نے آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی معیاد نہ ہونے پر تاحیات نا اہلی ہو گی۔‘ اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ ’میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے۔

کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں۔ اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آ جائے گی۔‘ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کر سکے؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ 18 ویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کے لیے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے میں بنائی گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔

کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟ لائیو اپ ڈیٹ کیا گیا تقریباً 2 گھنٹے پہلے عدلیہ و فوج کی تضحیک سنگین جرم ہے: سپریم کورٹ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ و فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔