منیشا روپیتا :پاکستان میں سندھ پولیس کی پہلی ہندو خاتون ڈی ایس پی منتخب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
لہرا دیا  پرچم ۔۔۔۔
لہرا دیا پرچم ۔۔۔۔

 

 

منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی ۔کراچی 

سرحد پار سے یوں تو اقلیتوں کے تعلق سے بہت اچھی خبریں نہیں آتی ہیں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں تو حالات بد سے بد تر ہیں۔لیکن اس ماحول میں جدوجہد کی کوئی نہ کوئی ایسی مثال سامنے آجاتی ہے جو انہیں ایک مثال بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کویہ پیغام دیتی ہے کہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھو۔ حق اور عزت کی جنگ میں سب سے اہم سنگ میل ہے یہ تعلیم۔سندھ کے حالات ہی سب سے خراب رہے ہیں ،جہاں شدت پسند غیر مسلموں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ جبرا تبدیلی مذہب اور جبرا شادیوں کے لاتعداد واقعار سرخیوں میں رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی نوجوان کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو ایک مثال بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کارنا مہ انجام دیا ہے منیشا نے۔

 پاکستان کے سندھ کے ضلع جیکب آباد سے تعلق رکھنے والی منیشا روپیتا سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد سندھ پولیس میں پہلی ہندو خاتون ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کے طور پر منتخب ہوگئی ہیں۔

منیشا کے بھائی روپ کمار روپیتا کے مطابق ان کی بہن نے 2019 میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا تھا۔ اس کا نتیجہ 13 اپریل کو جاری ہوا جس میں انہیں ڈی ایس پی کے طور پر سلیکٹ کرلیا گیا۔’منیشا روپیتا پاکستان میں پہلی ہندو خاتون ہیں۔ پو پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے پر منتخب ہوئی ہیں۔یاد رہے کہ 2019 میں سندھ کے ضلع عمرکوٹ کی پشپا کماری کو پاکستان میں پہلی ہندو خاتون اے ایس آئی کے عہدے پر منتخب کیا گیا تھا۔

 والد کی یاد آئی

 روپ کمار کے مطابق وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور ان کا خاندان 10 سال پہلے جیکب آباد سے بچوں کی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوگیا تھا۔ ان کی ایک بہن ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ان کے بقول کمیشن میں ٹوٹل 240 سیٹیں تھیں، جن میں میرٹ لسٹ میں منیشا سولہویں نمبر پر ہیں۔‘ منیشا نے کہا کہ میں نے کمیشن پاس کرنے کے لیے سخت محنت کی اور جب کوئی محنت کرتا ہے تو ایک امید بھی ہوتی ہے اور آج میری امید پوری ہوگئی۔ میرے والد بلو مل لڑکیوں کے تعلیم کے حق میں تھے اور اگر آج وہ زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔26 سالہ منیشا نے اپنی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم جیکب آباد سے حاصل کی جس کے بعد وہ کراچی آگئیں۔

awazurdu

 

لڑکیوں کے لیے مثال

 منیشا کے مطابق میرا ڈی ایس پی کے طور پر انتخاب ہماری برادری کی لڑکیوں کے لیے ایک مثبت مثال ہوگا۔ ان میں اعتماد آئے گا کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے بڑے عہدے حاصل کر سکتیں ہیں، اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ مقامی ہندوؤں کے مطابق وہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے اب سے بڑی اقلیتی برادری ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 55 لاکھ ہے، جبکہ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ہندو آبادی 80 لاکھ سے بھی زائد ہے۔ سندھ کے محکمہ صحت میں ایک اندازے کے مطابق ڈاکٹروں سمیت کُل عملے کا 30 فیصد ہندو ہیں، جن میں ہندو خواتین ڈاکٹر کی بہت بڑی تعداد ہے، مگر دیگر شعبوں میں بھی اب ہندو خواتین کے آگے آنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

مینشا سے پہلے  پشپا 

جبکہ اس سے قبل 2019میں بھی ایک ہندو خاتون نے اپنی جدوجہد سے پاکستان میں جو رکاٹیں آئی تھیں انہیں دور کیا تھا اور سندھ کی ہی پہلی اسسٹینٹ انسپکٹر بنی تھیں۔ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی پشپا کُماری سندھ پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بنی تھیں۔پشپا کُماری کا تعلق ہندو مذہب کی کولھی برادری سے ہے۔ صوبہ سندھ کے علاقے ساماری کی رہائشی پشپا کُماری نے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے کریٹیکل کئیر آئی سی سی میں گریجیوشن کیا تھا اور 2016 میں پبلک سروس کمیشن افسر کے امتحان کا فارم جمع کیا تھا، کامیابی کے بعد پشپا کُماری کا کہناتھا کہ ’یہ میرے ماں باپ کی محنت اور دُعاؤں کا نتیجہ ہے کہ میں آج کامیابی کی سیڑھی پر چڑھی ہوں،میں ایک بہادر اور ایماندار پولیس افسر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانا چاہتی ہوں۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص اپنی ذات، رنگ یا نسل کی بنیاد پر نہیں جانا جاتا بلکہ وہ اپنے کردار اور اپنے کام سے جانا جاتا ہے۔میں چاہتی ہوں کہ میری برادری کی دیگر لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور پاکستا ن کا نام روشن کریں۔