امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نہیں رہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-03-2022
امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نہیں رہیں
امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نہیں رہیں

 

 

نیویارک:امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ طویل علالت کے بعد بدھ کوانتقال کر گئیں۔ وہ مطابق کینسر کے مرض میں مبتلا البرائٹ کی عمر 84 سال تھی۔ البرائٹ کے خاندان نے بدھ کی شام جاری ایک بیان میں ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا: ’ہم نے ایک پیار کرنے والی ماں، دادی، بہن، خالہ اور دوست کو کھو دیا ہے۔‘

 وزیر خارجہ کے طور پر البرائٹ امریکی حکومت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ تاہم وہ صدارت کی جانشینی کی امیدوار نہیں بن سکیں کیوں کہ وہ چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر ان کو سراہا گیا یہاں تک کہ ان کے سیاسی مخالف بھی البرائٹ کی قابلیت کے معترف تھے۔

عہدہ چھوڑنے کے بعد انہوں نے صدر بش کی سفارت کاری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا کہ بش نے اعتدال پسند عرب رہنماؤں کو امریکہ سے بیزار کر دیا اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں خطرناک دراڑ کا امکان پیدا کیا۔ چیکوسلواکیہ کی ایک پناہ گزین کے طور پر جنہوں نے نازی جرمنی اور سویت جارحیت کی ہولناکیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اس لیے انہوں نے کلنٹن انتظامیہ پر کوسوو کے تنازعے میں عسکری طور پر ملوث ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کیوبا پر بھی سخت موقف اختیار کیا۔ البرائٹ نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ ’زیادہ پر اعتماد طریقے سے کام کریں اور ہمیشہ سوال پوچھیں اور اس کا انتظار نہ کریں۔‘ البرائٹ نے نیٹو کی توسیع اور کیمیائی ہتھیاروں پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے والے معاہدے کی سینیٹ کی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔ البرائٹ نے بطور وزیر خارجہ 1998 میں مشرق وسطیٰ میں امن کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا۔

البرائٹ نے پہلے 1993 کے اوسلو معاہدے کو وسعت دینے کی کوشش میں محدود پیش رفت کی جس سے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کو خود مختاری قائم کرنے میں مدد ملی۔ 1998 میں ان کی کوششوں سے مغربی کنارے کے تقریباً 40 فیصد حصے کا کنٹرول فلسطینیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کی قیادت میں اسرائیل اور شام کے درمیان 2000 کے امن معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک کوشش کی بھی قیادت کی۔

انہوں نے بلقان کی جنگ اور روانڈا میں نسل کشی کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کی مدد کی۔ صدر بائیڈن نے ان تعزیت کرتے ہوئے کہ: ’امریکہ کے پاس سیکرٹری البرائٹ سے زیادہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پرعزم چیمپیئن نہیں رہا۔‘انہوں نے مزید کہا: ’جب میں میڈلین کے بارے میں سوچتا ہوں میں ہمیشہ اس کے پرجوش یقین کو یاد رکھوں گا کہ 'امریکہ ہم سب کے لیے ناگزیر قوم ہے۔‘ موجودہ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ البرائٹ ’ایک شاندار سفارت کار، ایک بصیرت والی رہنما، ایک دلیر ٹریل بلزر، ایک سرشار رہنما اور ایک عظیم اور بہترین شخص تھیں جنہوں نے امریکہ سے دل کی گہرائیوں سے محبت کی اور اپنی زندگی اس کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔‘

 

بل کلنٹن نے انہیں ’بہترین وزیر خارجہ، اقوام متحدہ کی ایک شاندار سفیر، ایک شاندار پروفیسر اور ایک غیر معمولی انسان‘ قرار دیا۔کلنٹن کے ساتھ ساتھ ان کے جانشین جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما نے بھی ان کی تاریخی خدمات کو سراہا۔ اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ البرائٹ نے ’دنیا کے کچھ انتہائی غیر مستحکم علاقوں میں ترقی کی راہیں ہموار کیں اور وہ جمہوری اقدار کی چیمپیئن تھیں۔‘

’انہوں نے ہمیں امید دی جب ہمارے پاس یہ (امید) نہیں تھی۔‘ دنیا بھر کے رہنماؤں نے امریکہ کی پہلی خاتون سیکریٹری خارجہ میڈلین البرائٹ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

جولائی 1995 میں بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں سریبرینیکا پر قبضے کے بعد 10 دن کے قتل عام کے دوران 8000 سے زیادہ بوسنیا کے مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔ بوسنیائی سرب فوج نے آٹھ ہزار سے زائد مسلم مردوں اور لڑکوں کا منظم انداز میں قتل کر دیا اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں پھینک دیں۔ سربوں نے بعد میں شواہد چھپانے کی غرض سے کئی قبریں کھود کر ان لاشوں کو دوبارہ دفنایا۔

بوسنیا کے صدر حارث سلاجک نے البرائٹ کے بارے میں کہا کہ ’وہ انصاف کی حقیقی چیمپیئن تھیں، وہ ناانصافی کو ہضم نہیں کر سکتی تھیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ سمجھ گئی تھیں کہ (بوسنیا) کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وہ اسے درست کرنے کے طریقے تلاش کر رہی تھیں۔‘ کوسوو کے صدر وجوسا عثمانی نے کہا کہ ’انہوں نے ہمیں امید دی جب ہمارے پاس یہ نہیں تھی۔

وہ ہماری آواز اور ہمارا بازو بن گئیں جب ہمارے پاس نہ تو آواز تھی اور نہ ہی بازو۔ انہوں نے ہمارے لوگوں کے درد کو محسوس کیا کیونکہ انہیں بچپن میں خود پر ظلم و ستم کا تجربہ تھا۔ اسی لیے وہ کوسوو میں نسل کشی کو روکنے کے لیے میلوسیوچ کے خلاف کھڑی تھیں۔‘ عثمانی نے مزید کہا کہ ’البرائٹ نے آخری سانس تک کوسوو کی حمایت کی اور اسی وجہ سے کوسوو کے لوگ انہیں ہمیشہ کے لیے یاد رکھیں گے۔‘

چیک وزیر اعظم پیٹر فیالا نے البرائٹ کے بارے میں کہا کہ ’دنیا کے کچھ ہی رہنماؤں نے ہمارے ملک کے لیے میڈلین البرائٹ کی طرح بہت کچھ کیا۔ البرائٹ کو دنیا میں ایک موقع ملا، انہوں نے اس کا بہترین استعمال کیا۔ شکریہ! ہم آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘ بل کلنٹن جنہوں نے 1996 میں بطور صدر، البرائٹ کو امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار کے طور پر نامزد کیا تھا، تقریباً تین سال قبل ان کے ساتھ اپنے آخری دورے کو یاد کیا۔ یہ دورہ کوسوو کا تھا جہاں آزادی کی جنگ کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر دارالحکومت پرسٹینا میں ایک مجسمہ ان کے اعزاز میں بنایا گیا تھا۔

بل کلنٹن نے کہا کہ ’چونکہ وہ خود جانتی تھیں کہ امریکہ کے پالیسی فیصلے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی ملازمتوں کو ایک ذمہ داری اور موقع دونوں کے طور پر دیکھا۔‘ ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں یوکرین اور اس کی آزادی کی حمایت کرتی ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو اپنی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’1990 کی دہائی کے دوران خارجہ تعلقات کمیٹی میں سکریٹری البرائٹ کے ساتھ کام کرنا ریاستہائے متحدہ کی سینیٹ میں میرے کیریئر کی جھلکیوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ سرد جنگ کے تناظر میں دنیا نے خود کو نئے سرے سے متعین کیا ہم ایسے شراکت دار اور دوست تھے جو نئی آزاد جمہوریتوں کو نیٹو میں خوش آمدید کہنے اور بلقان میں نسل کشی کی ہولناکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔‘