لندن: ملالہ برطانوی فیشن میگزین ووگ کے سرورق پر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2021
سرورق پر ملالہ
سرورق پر ملالہ

 

 

لندن :  ملالہ یوسفزئی نے ووگ میگزین کے کور کی تصویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے کہا ’’میں ایک ایسی لڑکی جس کے دل میں وژن اور مشن ہو میں اس کی طاقت کو جانتی ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہر وہ لڑکی جو اس سرورق کو دیکھے گی وہ یہ جان جائے گی کہ وہ دنیا کو تبدیل کرسکتی ہے‘‘۔

اس ٹوئٹ میں ملالہ نے ووگ میگزین انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ ملالہ یوسفزئی سماجی کارکن، کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ خاتون اور گزشتہ برس آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والی سب سے مشہور شخصیت ہیں۔

برٹش ووگ کے ایڈیٹر ان چیف ایڈورڈ نے اپنے سوشل میڈیا پر ملالہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ،’’جب ان لوگوں کی بات ہوتی ہے جن کی میں تعریف کرتاہوں تو ملالہ یوسف زئی سب سے اوپر ہیں۔ 23 سال کی عمر میں، دنیا کی سب سے مشہور یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والی ملالہ پہلے ہی بہت سی زندگیاں گزار چکی ہیں، بطور سرگرم سماجی کارکن، مصنف، لڑکیوں کی تعلیم کے لئے انتھک مہم چلانے والی، بیٹی، بہن، طالب علم اور زندہ بچ جانے والی۔

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ صرف ایک دہائی قبل وہ ایک نوجوان تھیں جس میں سیکھنے کا جنون تھا۔ انہوں نے مزید لکھا وہ پاکستان کی وادی سوات میں رہتی تھیں، بی بی سی کے لئے اپنے تجربے کے بارے میں بلاگ لکھتی تھیں اور ایک طالب علم تھیں۔ 2012 میں ان پر ایک مہلک حملہ ہوا اور وہ حادثہ انہیں سرجری کے لئے برطانیہ لایا لیکن وہ وہاں رکی نہیں

ملالہ یوسف زئی سے جب پوچھا گیا کہ وہ اگلے 10 سال میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں تو انہوں نے مبہم جواب دیا اور وہ واضح نہیں بتا پائیں کہ وہ ایک دہائی بعد کہاں ہوں گی؟

نوبیل انعام یافتہ سماجی رہنما نے سوالیہ انداز میں بتایا کہ ممکن ہے کہ وہ یہیں برطانیہ میں ہی مقیم ہوں، یا پھر واپس اپنے ملک پاکستان جا چکی ہوں، ساتھ ہی انہوں نے کہا ممکن ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک میں رہائش پذیر ہوں۔انہوں نے بتایا کہ وہ سوچتی ہیں کہ دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ شخصیت بن جانے کے بعد عام زندگی رک نہیں جاتی اور ان کا سفر جاری ہے۔

ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ مستقبل کا سوچ کر وہ سوچتی ہیں کہ کیا انہیں والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے یا پھر وہ تن تنہا زندگی گزاریں؟انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا اور بتایا کہ وہ فی الحال والدین کے ساتھ ہیں اور چوں کہ والدین کی ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ بچے ان کے ساتھ ہی رہیں۔ دوپٹہ مسلم، پاکستانی و پشتون لڑکی ہونے کی نشانی ہے ۔۔

دوران انٹرویو ملالہ یوسف زئی نے بتایا کہ وہ جب بھی گھر سے نکلتی ہیں تو دوپٹہ ضرور پہنتی ہیں، کیوں کہ اسے نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی اور پشتون لڑکی کی شناخت اور نشانی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

 ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب کوئی مسلمان یا پاکستانی لڑکی دوپٹہ یا دوسرا ثقافتی لباس پہنتی ہے تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ تاحال پدرشاہانہ تسلط میں زندگی گزار رہی ہیں مگر ان کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔

نوبیل انعام یافتہ نے اپنے مداحوں کو پیغام دیا کہ کوئی بھی شخص اپنے ثقافتی لباس اور اقدار میں رہتے ہوئے بھی خودمختار ہوسکتا ہے۔

 انٹرویو کے دوران ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوئیشن کرنے اور وہاں گزارے گئے دنوں پر بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ یونیورسٹی کے دن ان کی زندگی کے بہترین دن ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ان کے زیادہ تر تین مشغلے پڑھائی کرنا، آرام کرنا اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا تھے اور انہیں سب سے اچھا مشغلہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا لگتا تھا۔

 انہوں نے بتایا کہ جب وہ کم عمری میں پاکستان میں اسکول پڑھتی تھیں تب وہ ہمیشہ اے ون نمبرز حاصل کرتی تھیں مگر جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی گئیں تو وہاں ایک عام طالب بن گئیں، کیوں کہ وہاں دنیا بھر کے ذہین ترین ذہن پڑھنے آتے ہیں۔

 ملالہ یوسف زئی نے انٹرویو میں اگرچہ اپنی زندگی سے متعلق کھل کر بات کی، تاہم وہ بظاہر سیاسی معاملات پر خاموش دکھائی دیں اور انہوں نے کسی بھی تنازع یا مسئلے پر کھل کر بات نہیں کی۔ملالہ یوسف زئی کی جانب سے سیاست پر کھل کر بات نہ کرنے کا ایک سبب ان کی سماجی تنظیم ’ملالہ فنڈ‘ کا دنیا کے 8 مختلف ممالک میں سرگرم ہونا بھی ہے۔

awazurdu

 ملالہ یوسف زئی کی مذکورہ تنظیم دنیا کے 8 مختلف ممالک میں لڑکیوں کی 12 سال کی عمر تک مفت اور بنا تعطل تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی جانب سے کسی سیاسی بیان دیے جانے سے ان کی تنظیم پر کوئی فرق پڑے۔

 نوبیل انعام یافتہ سماجی رہنما نے بالغ شخصیت ہونے کے ناطے رومانوی تعلقات اور شادی کے معاملے پر کھل کر بات کی اور بتایا کہ آج کل کے دور میں جب ان کی کئی قریبی سہیلیاں سوشل میڈیا پر اپنے رومانوی تعلقات سے متعلق باتیں شیئر کرتی ہیں تو بعض مرتبہ وہ احساس محرومی کا شکار بن جاتی ہیں۔انہوں نے شادی سے متعلق بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ لوگوں کو شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اور رومانوی تعلقات کے لیے لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں؟

 ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو کسی شخص کا ساتھ چاہیے تو اس کے لازمی نہیں ہے کہ نکاح نامے پر دستخط کیے جائیں۔سماجی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کا فی الحال شادی کا ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔اسی موضوع پر انہوں نے بتایا کہ لیکن ان کے والدین کے خیالات الگ ہیں اور ان کی والدہ کی خواہش ہے کہ وہ شادی کریں۔ 

ملالہ یوسف زئی کے مطابق والدہ انہیں شادی کی فوائد بتاتی رہتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ شادی ایک خوبصورت تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔سماجی رہنما کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کے والد بھی شادی سے متعلق اچھی رائے رکھتے ہیں، تاہم انہوں نے ان پر زور نہیں دیا۔ملالہ یوسف زئی نے انکشاف کیا کہ کئی پاکستانی لڑکے ان کے والد کو ان سے شادی کے پیغامات بھجوا چکے ہیں۔  سماجی رہنما نے بتایا کہ پاکستانی لڑکے ان کے والد کو ای میل کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس کتنی جائداد اور ملکیت ہیں اور وہ ملالہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، جس پر ان کے والد خوش ہوتے ہیں۔۔