نیویارک: امریکی خبر رساں ادارے نے مبینہ طور پر خاتون صحافی کو فلسطینیوں کے حق میں سوشل میڈیا بیان کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) نے 22 برس کی خاتون صحافی امیلی وِلڈرکو گذشتہ ہفتے اُس وقت نوکری سے نکالا تھا جب غزہ پر اسرائیلی حملے عروج پر تھے۔ اے پی نےکہا ہے امیلی ولڈرکو سوشل میڈیا پالیسی کی خلاف ورزی پر نکالا گیا ہے تاہم ادارے نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ’خلاف ورزی‘ کیا تھی ؟
دوسری جانب خاتون صحافی نے کہا ہےکہ اسے طالب علمی کے دور میں فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی سزادی گئی ہے۔ امیلی خود ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور زمانہٗ طالبعلمی میں امیلی یونی ورسٹی میں 'اسٹوڈنٹس فار جسٹس اِن پیلیسٹائن ' اور 'جیوش وائس فار پیس' نامی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے صیہونیت کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
اے پی سے وابستگی کے بعد بھی امیلی نے نہ صرف فلسطینیوں کے حق میں کیےگئے کچھ ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کیا بلکہ 17 مئی کو ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ 'غیر جانبدار صحافت پر اس وقت سوال کھڑے ہوتے ہیں جب بنیادی اصطلاحات استعمال کرتے وقت ایک سائیڈ کو چنا جائے، اسرائیل کا نام تو لیا جائے، لیکن فلسطین کا نام استعمال نہ کیا جائے، یا جنگ کہا جائے، قبضہ یا محاصرہ نہیں، ایسا کرنا ایک سیاسی طرز عمل ہے اور میڈیا ہمیشہ ایسا کرتا آیا ہے لیکن اس کے متعصبانہ ہونے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا'۔ واضح رہے کہ امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی گریجویٹ امیلی وِلڈر کو ایسوسی ایٹڈ پریس میں ملازمت ملے ابھی 2 ہفتے ہی گزرے تھے۔
“objectivity” feels fickle when the basic terms we use to report news implicitly stake a claim. using “israel” but never “palestine,” or “war” but not “siege and occupation” are political choices—yet media make those exact choices all the time without being flagged as biased
— emily wilder (@vv1lder) May 16, 2021
My statement on my termination from The Associated Press. pic.twitter.com/kf4NCkDJXx
— emily wilder (@vv1lder) May 22, 2021