یروشلم: اسرائیلی فوج کے ایک سینئر اہلکار نے بدھ کے روز بتایا کہ اعلیٰ فوجی قیادت نے غزہ پٹی کے انتہائی گنجان آباد علاقوں میں فوجی کارروائی کے ایک نئے مرحلے کی منصوبہ بندی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ نیا مرحلہ ان علاقوں میں شروع کیا جائے گا جہاں اب تک فوج نے براہ راست کارروائی نہیں کی، لیکن جہاں حماس کے جنگجو اب بھی سرگرم ہیں۔
افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بتایا کہ منصوبے کو فوجی قیادت سے باضابطہ منظوری مل چکی ہے اور یہ اب عمل درآمد کے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ البتہ، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ نیا فوجی آپریشن کب شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ مہینے میں 50,000 اضافی ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جائے گا، جس کے بعد مجموعی طور پر فعال ریزرو فوجیوں کی تعداد 1,20,000 ہو جائے گی۔
یہ اقدام ممکنہ طور پر ایک طویل اور شدید زمینی آپریشن کی تیاری کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری شدید جنگ کے تناظر میں سامنے آیا ہے، جس کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا جب حماس نے جنوبی اسرائیل میں ایک غیر معمولی حملہ کیا، جس میں 1,200 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بھرپور فضائی، زمینی اور بحری حملے شروع کیے، جن کے نتیجے میں اب تک ہزاروں فلسطینی شہری جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس جنگ نے خطے میں انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، خاص طور پر غزہ شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں، جہاں بنیادی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں، اور لاکھوں افراد کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
اب جب کہ اسرائیلی فوج ایک نئے مرحلے کی تیاری کر رہی ہے، یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ مزید شہری ہلاکتیں اور انسانی حقوق کی پامالیاں سامنے آ سکتی ہیں، کیونکہ یہ حملے ان علاقوں میں کیے جائیں گے جہاں لوگ ابھی بھی بڑی تعداد میں مقیم ہیں اور حماس زیر زمین سرنگوں اور شہری ڈھانچے کے اندر سے کارروائیاں کر رہی ہے۔
اسرائیل کا یہ اقدام نہ صرف جنگ کو طول دے سکتا ہے بلکہ یہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نئی تنقید اور دباؤ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نیا آپریشن حماس کی طاقت کو کمزور کرتا ہے یا ایک نئی انسانی المیہ کو جنم دیتا ہے۔