تل ابیب: اسرائیل کی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے میں قائم 19 نئی یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام اسرائیل کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے وزرا، وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کی تجویز پر عمل میں آیا۔
اس فیصلہ کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اسرائیل کے اس اقدام کو فلسطین کی تباہی قرار دیا۔ فلسطینی حکام نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل الحاق، نسلی امتیاز اور فلسطینی علاقوں پر مکمل قبضے کے اپنے اصل ارادوں کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر اور قانونی حیثیت دینا ایک طویل عرصے سے تنازعہ کا مرکز رہا ہے۔
فلسطینی علاقے پر اسرائیل کی یہ بستی سازی بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھی جاتی ہے، اور یہ اقدام صہیونی حکومت کی پالیسی کے تحت فلسطینی علاقوں پر قبضے کو قانونی شکل دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
حماس سمیت دیگر فلسطینی گروہوں نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل قبضہ ختم نہ کرے تو وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلے اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان امن مذاکرات کو مزید پیچیدہ کر سکتے ہیں۔