داعش افغانستان سے امریکہ پر اگلے سال حملہ کر سکتی ہے: پینٹاگون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-10-2021
داعش افغانستان سے امریکہ پر اگلے سال حملہ کر سکتی ہے: پینٹاگون
داعش افغانستان سے امریکہ پر اگلے سال حملہ کر سکتی ہے: پینٹاگون

 

 

واشنگٹن :   امریکہ میں پینٹاگون حکام نے کانگریس کو بتایا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ خراسان چھ ماہ میں امریکہ پر حملہ کر سکتی ہے اور وہ ایسا کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ ڈیفینس فار پالیسی میں انڈر سیکریٹری کولن کاہل کا کہنا تھا کہ ’انٹیلیجنس کمیونٹی نے حال ہی میں جائزہ لیا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ خراسان اور القاعدہ کا امریکہ سمیت بیرون ملک کارروائیاں کا ارادہ ہے لیکن وقتی طور پر ان کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ چھ ماہ سے ایک سال کے اندر دولت اسلامیہ خراسان یہ صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔ کولن کاہل کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے باوجود امریکہ کو افغانستان کی سرزمین سے خطرہ ہے۔

طالبان داعش کے دشمن ہیں جس نے اقلیتی شعیہ کمیونٹی پر خود کش حملوں کے علاوہ طالبان پر بھی حملے کیے ہیں۔ سینیٹ کی مسلح سروسز کمیٹی کے سامنے کولن کاہل نے کہا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان کے پاس دولت اسلامیہ کے ساتھ موثر طور پر لڑنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔

ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ طالبان اور دولت اسلامیہ خراسان ابدی دشمن ہیں۔ طالبان اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں، لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کے پاس یہ صلاحیت ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ دولت اسلامیہ کے پاس افغانستان میں ’چند ہزار جنگجو ہیں۔

 افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا تھا کہ دولت اسلامیہ سے درپیش خطرے پر قابو پایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان سے دوسرے ممالک پر حملے نہیں کرنے دیے جائیں گے۔ کولن کاہل نے کہا کہ ’افغانستان میں القاعدہ کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ ایک زیادہ پیچیدہ مسئلہ ہے، اور یہی تعلقات تھے جن کی وجہ سے نائن الیون کے حملے ہوئے۔

 ان کے مطابق القاعدہ کو افغانستان سے باہر امریکہ پر حملہ کرنے میں ’ایک سے دو سال‘ لگ سکتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے درپیش خطرات کے باعث امریکہ خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کا مشن جاری رکھے گا۔ تاہم امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں فوج کے بغیر القاعدہ اور دولت اسلامیہ جیسے گروہوں کو شناخت اور ختم کرنا بہت مشکل ہے۔