اسرائیلی حملے میں ایرانی صدر بال بال بچے تھے

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 14-07-2025
 اسرائیلی حملے میں ایرانی صدر  بال بال بچے تھے
اسرائیلی حملے میں ایرانی صدر بال بال بچے تھے

 



تہران – ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پیزشکیان گزشتہ ماہ اسرائیل کے مبینہ حملے کے دوران معمولی زخمی ہوئے تھے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 16 جون کو تہران میں واقع ایک خفیہ زیر زمین تنصیب پر اسرائیلی حملے میں صدر پیزشکیان اور دیگر اعلیٰ حکام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

فارس نیوز ایجنسی، جو پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھی جاتی ہے، کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب صدر پیزشکیان سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں شریک تھے۔ چھ بموں نے تنصیب کے تمام داخلی و خارجی راستوں اور وینٹیلیشن سسٹم کو نشانہ بنایا، جب کہ بجلی کا نظام بھی ناکارہ ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق، صدر کو ٹانگ میں معمولی چوٹیں آئیں، تاہم وہ اور دیگر حکام ایک ایمرجنسی شافٹ کے ذریعے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ شدید کشیدگی اور حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں شمال مغربی تہران کے ایک پہاڑی علاقے پر بار بار بمباری کے مناظر دکھائے گئے تھے، جن کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ وہ اسی خفیہ تنصیب پر حملے کی تصویری جھلکیاں تھیں۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، اور اسرائیلی حکومت نے اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حملے کا مقصد ایران کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانا تھا۔ ایک موقع پر آیت اللہ علی خامنہ ای بھی ممکنہ ہدف تھے، مگر حملے سے قبل انہیں ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ بیرونی دنیا سے کافی حد تک منقطع ہو گئے۔

گزشتہ ہفتے صدر پیزشکیان نے کھل کر اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع یؤاف گیلنٹ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "اس جنگ کا مقصد حکومت کی تبدیلی نہیں تھا۔"

رپورٹ کے مطابق، حملے کے بعد کم از کم ابتدائی 24 گھنٹے تک ایرانی قیادت فیصلہ سازی سے قاصر رہی، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران اس حملے سے مکمل طور پر غافل تھا۔

اب ماہرین اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے ایران کے اعلیٰ ترین عہدیداروں اور کمانڈروں کے ٹھکانوں کے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات کس طرح حاصل کیں۔ اس سوال کا جواب نہ صرف موجودہ تنازعے بلکہ مستقبل کی سلامتی پالیسیوں کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔