واشنگٹن : تہران اور تل ابیب کے درمیان 12 روز تک جاری رہنے والی خونی جھڑپوں کے بعد اگرچہ جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن ایران کے جوہری پروگرام پر کیے گئے اسرائیلی اور امریکی حملوں کے حقیقی اثرات پر اب سوالات اٹھنے لگے ہیں۔جہاں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے "ایران کے خلاف تاریخی فتح" قرار دیا، وہیں امریکی دفاعی خفیہ ایجنسی(DIA) کی حالیہ رپورٹ میں ان حملوں کی مؤثریت پر شکوک کا اظہار کیا گیا ہے۔
امریکی رپورٹ: صرف "چند ماہ کی تاخیر"
امریکی میڈیا نے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی(DIA) کی خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں ایران کے یورینیم افزودگی پروگرام کو مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جا سکا۔ رپورٹ کے مطابق:
وائٹ ہاؤس کی تردید
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری، کیرولائن لیویٹ نے اس رپورٹ کے میڈیا میں آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "غلط اور بدنیتی پر مبنی" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہیہ رپورٹ صدر ٹرمپ اور ان تمام بہادر فائٹر پائلٹس کو بدنام کرنے کی کوشش ہے جنہوں نے ایران کے خلاف بہترین مشن سر انجام دیے۔
نیتن یاہو کا دو ٹوک مؤقف
جنگ بندی کے اعلان کے بعد نیتن یاہو نے ایک بار پھر دہرا دیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ اگر ایران نے دوبارہ جوہری پروگرام کو زندہ کرنے کی کوشش کی، تو ہم اسی شدت سے اسے ناکام بنائیں گے۔اسرائیلی فوج کا بھی کہنا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام کئی سال پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
جنگی کارروائیاں: حملے اور جوابی حملے
ایران کی پوزیشن: مذاکرات پر آمادگی مگر اصولوں پر قائم
ایرانی صدر مسعود پیزیشکیان نے واضح کیا کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ ایران جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے اپنے جائز حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
انسانی نقصانات اور علاقائی کشیدگی
اسرائیلی حملوں میں جہاں فوجی و جوہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا، وہیں رہائشی علاقوں پر بمباری اور ایرانی سائنسدانوں کی ہلاکتوں نے کشیدگی کو اور بڑھا دیا۔ ایران نے تل ابیب سمیت متعدد اسرائیلی شہروں پر میزائل حملوں سے جواب دیا۔