افغانستان: ’’پنجشیر‘‘ کے لیے جنگ،300 طالبان کی ہلاکت کا دعوی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پنجشیر میں جنگ کا آغاز
پنجشیر میں جنگ کا آغاز

 

 

کابل : ابھی کابل میں طالبان کا ا ونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے لیکن ایک نئی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔

پنجشیر میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے بلکہ افغانستان کے مختلف علاقوں سے طالبان مخالف گروپ پنجشیر پہنچ گئے ہیں اور طالبان کے خلاف ایک بڑا محاذ تیار ہے لیکن آج طالبان کا ایک بڑا جنگی دستہ پنجشیر میں بڑے حملے کے لیے روانہ ہوگیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں کئی ویڈیو آرہے ہیں جن میں طالبان کی کئی سو گاڑیوں پر مشتمل قافلہ رواں دواں ہے۔ جس کی منزل پنجشیر بتائی جارہی ہے۔

طالبان بھاری ہتھیاروں سے پنچشیر پر حملہ کرنے پہنچ رہے ہیں۔ اس بار تعداد بھی زیادہ ہے۔ ملحقہ صوبہ بغلان کے اندراب ضلع میں بڑی تعداد میں طالبان نے کل رات حملہ کیا۔ یہاں کئی لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

افغانستان کے 34 میں سے 33 صوبے طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ جو بچا ہے وہ صرف پنجشیر ہے ، جس کے لیے طالبان اور پنجشیر کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

اطلاعات تھیں کہ پنجشیر کے جنگجوؤں نے راستے میں طالبان پر گھات لگا دی۔

اس حملے میں 300 طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔ طالبان نے اس خبر کو غلط قرار دیا ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس نے پنجشیر کے دو اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔

اس حملے کے پیش نظر باغی جنگجوؤں نے بگلان ضلع دہ صلاح میں متحرک ہونا شروع کر دیا ہے۔

حملے کے بعد پنجشیر کے آس پاس کے علاقے سے ہجرت شروع ہو گئی ہے۔ لوگ محفوظ مقامات کی تلاش میں گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔

یہاں طالبان سے لڑنے والے باغی کچھ دن پہلے پیچھے ہٹ گئے تھے اور پہاڑوں پر چلے گئے تھے ، لیکن آج صبح انہوں نے پہاڑوں سے ہی طالبان پر حملے شروع کر دیے ہیں۔

پنجشیر کے جنگجو طالبان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

طالبان بھی پنجشیر کیس کے جلد حل کے حق میں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پنجشیر کے جنگجوؤں کو پرسکون نہ کیا گیا تو انہیں حکومت چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پنجشیر افغانستان کا واحد صوبہ ہے جس پر طالبان آج تک قبضہ نہیں کر سکے۔

ذرائع کے مطابق طالبان مذاکرات کار احمد مسعود کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے لیے مسلسل بات چیت کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ابھی تک کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔ حقانی کے دعووں کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

افغانستان میں طالبان تقریباً کابل سمیت ملک کے تمام حصوں پر قبضہ کرچکے ہیں اور اس وقت ملا عبدالغنی برادر سمیت ان کی اعلیٰ قیادت افغان دارالحکومت میں موجود ہے اور ملک میں حکومت بنانے کے حوالے سے غور و فکر کررہی ہے۔

ایسے میں صرف پنجشیر ایک ایسا علاقہ ہے جو اب تک طالبان کے کنٹرول سے باہر ہے۔

پنجشیر افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک ہے جو کابل سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ صوبہ طالبان کے پچھلے دور 1996 سے لے کر 2001 تک میں بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں تھا اور ’شیر پنجشیر‘ کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں ناردن الائنس (شمالی اتحاد) طالبان کے خلاف جنگ اسی علاقے سے لڑتا تھا۔

 احمد شاہ محسود کے صاحبزادے احمد مسعود اس علاقے میں موجود ہیں جنہوں نے کچھ دن قبل واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ وہ اور ان جنگجو طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔

 

 اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اس وقت کابل موجود ہیں جنہوں نے ہفتے کے روز پنجشیر کی بااثر شخصیات باشمول مذہبی رہنماؤں اور مسلح کمانڈرز سے اپنے گھر پر ملاقات کی۔

طالبان نے ضلع کعشین آباد سے 20 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا ہے۔

 جنگ اب تک جاری ہے، مزاحمتی گروپ کو مقامی لوگوں کی طرف سے زیادہ حمایت حاصل ہےاور طالبان وادی میں محصور ہیں۔