جاوا : انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا میں شادیوں، جلوسوں اور دیگر تقریبات میں استعمال ہونے والے دیوہیکل لاؤڈ اسپیکر ٹاورز عوامی پریشانی، سماجی تنازع اور صحت کے شدید خطرات کا سبب بننے لگے ہیں۔ ان اسپیکرز کے ذریعے پیدا ہونے والی زوردار آوازوں کو مقامی زبان میں "ساؤنڈ ہورِگ" کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے جھٹکا یا لرزش اور واقعی، یہ آوازیں گھروں کی دیواروں، کھڑکیوں اور چھتوں تک کو لرزا دیتی ہیں۔
مشرقی جاوا کے نگانترو گاؤں کے رہائشی احمد سُلیات نے بتایا کہ دوپہر ایک بجے سے رات تین بجے تک تیز میوزک بجتا رہتا ہے، لوگ شراب نوشی کرتے ہیں اور شور شرابہ معمول بن چکا ہے، جس سے مقامی باشندوں کو شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان تقریبات کی وجہ سے گھروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، چھتوں کی ٹائلیں گر چکی ہیں، جبکہ دکانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
عوامی احتجاج اور میڈیا پر شور کے بعد مشرقی جاوا کی حکومت نے لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال سے متعلق نئے قوانین نافذ کیے ہیں۔ مشرقی جاوا کی گورنر خوفیہ اندرا پرواںسا نے اس حوالے سے کہا کہ یہ اقدامات شہریوں کی صحت اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں تاکہ عوامی امن و سکون کو برقرار رکھا جا سکے۔
نئے ضوابط کے مطابق تقریبات میں آواز کی زیادہ سے زیادہ حد 120 ڈیسی بیل مقرر کی گئی ہے، جبکہ جلوسوں یا احتجاجی مظاہروں میں استعمال ہونے والے موبائل اسپیکرز کے لیے حد 85 ڈیسی بیل رکھی گئی ہے۔ مزید برآں، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کے قریب لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ معاملہ صرف انتظامیہ تک محدود نہیں رہا۔
مقامی اسلامی علما کونسل نے بھی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے فتویٰ جاری کیا ہے کہ ایسی تقریبات جن میں اس قدر بلند آواز پیدا ہو کہ دوسروں کو اذیت پہنچے یا عبادات میں خلل واقع ہو، اسلامی نقطۂ نظر سے ناجائز اور حرام ہیں۔ علما کا کہنا ہے کہ اسلام کسی بھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دیتا جو دوسروں کو تکلیف دے، چاہے وہ شور کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں۔ صحت کے ماہرین بھی اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق حد سے زیادہ شور نہ صرف دل کے امراض اور دائمی ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے بلکہ مستقل سماعتی نقصان کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک افسوسناک واقعے میں ایک خاتون کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، جس کے بارے میں مقامی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ساؤنڈ ہورِگ تقریب میں شریک تھیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق 85 ڈیسی بیل سے زائد آواز مسلسل سننے سے انسانی سماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جبکہ 120 ڈیسی بیل سے اوپر کی آواز فوری طور پر سماعت کو متاثر کر سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈونیشیا میں بعض تقریبات میں آواز کی شدت 130 ڈیسی بیل تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے، جو ایک جہاز کے ٹیک آف کے شور کے برابر ہے۔
یوں جاوا کے دیہی علاقوں میں تفریح کی نیت سے ہونے والی یہ تقریبات اب عوامی زندگی کے لیے عذاب بن چکی ہیں۔ حکومت، علما اور شہری سماجی توازن، دینی سکون اور صحتِ عامہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، تاکہ شور و غل کی اس نئی ثقافت کو اعتدال میں لایا جا سکے۔