غزہ پر اسرئیلی حملوں اور ناکہ بندی کے سبب اب غزہ میں بجلی کی سپلائی مکمل طور پر ٹھپ ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔اگر ایک دن میں پاور اسٹیشنز میں ایندھن کی سپلائی بحال نہیں ہوئی توغزہ بدھ تک اندھیرے میں ڈوب جائے گا جس کا سب سے خراب اثر اسپتالوں پر پڑ سکتا ہے کیونکہ ہزاروں زخمی افراد زیر علاج ہیں،لاتعداد موت اور زندگی سے جنگ لڑ رہے ہیں۔طبی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس صورت حال میں 2014 کے بعد وقفے وقفے سے ہونے والی سب سے زیادہ شدید لڑائی کے نتیجے میں گھر اوراسپتال تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔
ایک برطانوی اخبار ’دی انڈیپنڈینٹ ‘ کے مطابق اس وقت بھی حالات بہت خراب ہیں،محاصرے میں گھری چھوٹی سی پٹی کے پورے حصے میں گھروں کو پہلے ہی دن میں چار گھنٹے بجلی مل رہی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اورغزہ کے درمیان کیرم شالوم کا وہ راستہ بند ہے جس کے ذریعے غزہ کو ایندھن ملتا تھا۔حالیہ کشیدگی نے اسرائیل جانے والی بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غزہ کے پاور پلانٹ میں آخری رہ جانے والی ٹربائن کو نیا تیل نہ ملا تو مکمل بلیک آؤٹ ہو جائے گا ۔
اگر ایسا ہوا تو
فلسطینی انرجی اتھارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسمیشن لائنوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے غزہ کو صرف 45 میگاواٹ بجلی مل رہی ہے جبکہ 25 میگاواٹ ہماری ٹربائنز سے حاصل کی جا رہی ہے جو ابھی تک کام کر رہی ہیں۔نجی جنریٹرز اور شمسی توانائی سے تھوڑی بہت بجلی مل رہی ہے۔بجلی کے یہ اعدادوشمار اس ڈیٹا سے مطابقت رکھتے ہیں جو غزہ میں ثابت نے دیا ہے۔
فلسطین توانائی اتھارٹی اور غزہ الیکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن کمپنی کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ایندھن کا استعمال جاری ہے جو پہلے ہی نجی کمپنیوں سے لیا جا رہا ہے لیکن یہ تیل صرف دو دن میں ختم ہو جائے گا۔اس کے بعد غزہ کا انحصار اسرائیل سے آنے والی بچی کچی بجلی پر رہ جائے گا۔ بجلی کی بڑی ٹرانسمیشن لائنز کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اسرائیل سے صرف 30 فیصد بجلی مل رہی ہے۔یہ تمام صورت حال غزہ میں زندگی کو متاثر کرے گی۔ خاص طور پر طبی شعبہ متاثر ہو گا۔
ہم گردے صاف کرنے والی مشینوں، میڈیکل امیجنگ کے آلات، وینٹی لیٹرز اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کی بات کر رہے ہیں۔ پانی کی فراہمی کا شعبہ بھی بہت متاثر ہو گا۔ تمام ضروری سہولتیں بھی۔یہ صورت حال 2014 کی جنگ کے بعد غزہ پر شدید ترین بمباری کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جس میں صرف اتوار کو42 لوگ مارے گئے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے اشارہ دیا ہے کہ جنگ بندی کی عالمی کوششوں کے باوجود لڑائی جاری رہے گی۔
اسرائیل پر3100 راکٹ داغے
ادھر فلسطینی تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے چھ روز میں اسرائیل پر3100 راکٹ داغے ہیں۔ ان راکٹوں کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے جتنی 2014 کی سات ہفتے جاری رہنے والی جنگ میں فائر کیے گئے تھے۔اسرائیلی فوج نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 2014 کی لڑائی میں اسرائیل پر3852 راکٹ چلائے گئے تھے۔اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ راکٹوں کی موجودہ تعداد ’یومیہ داغے جانے راکٹوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے جس کا اسرائیل نے اپنی تاریخ میں سامنا کیا ہے۔‘ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں سے بھاری قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔ اس موقعے پر ان کے وزیر دفاع اور سیاسی حریف بینی گینٹز بھی اظہار یکجہتی کے لیے ان کے ساتھ کھڑے تھے۔